اچھائی سچائی واقعی سانجھی ہوتی ہے ۔ میں نے بچپن میں سنا تھا کہ “جو دین کا نہ رہا وہ کہیں کا نہ رہا “امی اکثر کہتی تھیں جو رب ہے وہی سب ہے، بس اس پر دیہان رکھو اس کی سنو اس کی مانو اور خوف اسی کا رکھو کو ئی خوف تمہارے پاس نہ آئے گا ۔ وہ محبت کرنے والا دوست ہے ، ولی ہے اور تمہارا مخلص ، ہمیں اس وقت سمجھ نہیں آتا تھا لیکن شایدوقت کے ساتھ ساتھ سمجھ بھی آگیا ۔
ایک ساتھی کی مختصر تحریر پڑھی لگا میری ہی سوچ ہے واقعی میں نے بھی دیکھا کچھ ممالک میں چند مہینوں کیلئے نماز باجماعت پر پابندی لگی۔ بڑی افسوس ناک خبر تھی پھر آہستہ آہستہ اکثر اسلامی ممالک اس کا شکار ہوئے ۔ کتنی اچھی لگتی ہے اذان کی آواز اور اس کا جواب دینا ۔ غیر مسلم ممالک میں جا کر جب اذان کی آوازیں کانوں میں نہیں پڑتیں تو عجیب بے چینی اور بے سکونی کا احساس ہو تا تھا ۔
پانچ وقت اذان ! گو یا “رب کا اعلان” کہ آئو فلاح کی طرف مگر اس حسین دنیا کے بکھیروں میں نہ توجہ سے اذان سنتے نہ سب جواب دیتے ہاں جن کو رب سے محبت اور مقصد حیات اور آخرت کی ملاقات یا د ہو ان کے لئے تو یہ کوئی مشکل کام، نہ تھا بلکہ باعث تسکین عمل تھا ۔ آئو نماز کیلئے آئو فلاح کیلئے مگر ہم بھٹکے ہوئے دنیا میں کھوئے ہوئے یا سوئے ہوئے اتنی سنجیدگی نہیں دکھائی پھر ایک شدید پکڑ نہ نظر آنے والے جرثومے نے دکھائی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو لاک ڈائون کردیا ۔
سارے کام دھندے بند ، کاش ہم بھی مسجدیں آباد رکھتے ، اذانیں دیتے !! مگر ہم تو مساجد سے بھی روک لئے گئے ہمیں دنیا چاہئے تھی نا ! لو دنیا جو اب گھٹ کر صرف گھر بلکہ تمہارے کمرے تک محدود ہو گئی ہے ۔ اب مساجد کی رونقیں ، سکون یاد آرہا ہے۔ اب کون ہے ان مسجدوں میں وہی مجاور ۔ مئوذن !! کتنی حیرت ہے واقعی بقول حمیرا حمید کے اس مئوذن پر کتنا ہی رشک آتا ہے ۔ جو سردی ، گرمی ، بہار ، بارش ، آندھی ، طوفان کی پروا کئے بغیر مسجد جاتے ہیں ۔ اذان دیتے ہیں اور سب کو فلاح کی طرف ، نماز کی طرف بلاتے ہیں ۔
اس نے یعنی ، یعنی ان مئوذن حضرات نے تو اپنا فرض بخوبی نبھایا لہٰذا اللہ نے آج مسجد کے دروازے بس انہی کے لئے کھلے رکھے ، کھلے ہیں اور دوسرے حسرت کر رہے ہیں ۔ ہم ٹالٹے رہتے تھے کہ نماز پڑھ لیں گے ، کرلینگے بعد میں نمازوں میں سستی دکھاتے تھے ، رب نے کہا تم کیا سجدہ کرو گے ، تم سے سجدے کی توفیق ہی چھین لی گئی ۔ بے نمازی کیلئے یہ “کرونا ـ” ایک واضح پیغام ہے پلٹنے کا ، بدلنے کا ، سمجھنے اور سلجھنے کا زندگی کے مقصد کو پانے کا ۔
ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ۔رب کے ہر کام میں خیر ہے ۔ یہ موقع سبحان اللہ اس کی محبت کی دلیل ہے ۔ وہ ستر مائوں سے بڑھ کر محبت کرنے والا وارننگ دے رہا ہے ہمیں تو اس کا اتنا حق ادا کرنا ہی نہ آیا جتنا اس کا ، اس رب کا ہم پر حق ہے ۔ شکر الحمد للہ کے ہم بچے ہوئے ہیں اور رحمتیں اب بھی ہم پر ہیں ۔ رب کو راضی کرنے میں دیر نہ کریں ، ہر پل کو اس کی رضا کے مطابق بنا کر اسے راضی کرنے میں ہی رہی ہماری دنیا اور دین کی عافیت ہے ۔
مخلص ہو کر حقوق اللہ اور حقوق العباد نبھانا ، کبھی نہ بھلانا یہی حاصل آزمائش ہے ۔ ہر دم مسجد میں داخل ہونے کی دعا اور مسجد سے باہر آنے کی دعا شعوری طورپر شگر گزاری سے مانگنا ہے ۔ اللہ کاشکر ہے اللہ مواقع دے رہا ہے ۔ ہمیں احساس جگانا ہے اور قر آن اور سنت کو شریعت کو اپنانا ہے ۔ ضمیر کو جگانا ، غفلت کو بھگانا ہے ۔ بس …نیت کے خالص ہونے کی ضرورت ہے یقین کامل درکار ہے ۔
یقین کی بات کرو تو یقین سے کہتا ہوں ہر ایک کام پہ منزل ہے آدمی کیلئے