دین میں بدعات کو ختم کر کے روشن سنت کو تازہ کر دینے کا نام تجدید ہے؛ اور اس کام کو سر انجام دینے والی ہستی کو’’ مجدد ‘‘کہتے ہیں، جو بالفاظ حدیثِ رسول اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیا جاتا ہے،چنانچہ حکیم تر مذیؒ نے نوادر الاصول میں ابوخولانیؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ میں نے رسول اللہٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: اللہ تعالی اس دین میں ہمیشہ کچھ ایسے پودے اگاتا رہے گا۔ جن سے اپنی تابعداری کے کام لے گا۔ یعنی ہر دور میں کچھ صالحین اور مجدد دین پیدا ہوتے رہیں گے جو دین اسلام کے احیا کے لیے کام کرتے رہیں گے۔
ایک اورحدیث کا مفہوم ہے: بے شک اللہ تعالیٰ اس امت کے لیے ہر صدی کے سرے پر ایسے بندے(مجدد)بھیجتا رہے گا جو اس کے لیے دین کی تجدید کریں گے۔حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ تجدید کی شرح میں مجدد کی صفت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :مجدد سنت کو بدعت سے ممتاز کرے گا۔ علم کو کثرت سے شائع کرے گا اور اہل ِعلم کی عزت بڑھائے گا، بدعت کا قلع قمع کرے گا اور اہلِ بدعت کا زور توڑ دے گا۔
مولانا محمد عبد الحئی رحم ۃاللہ علیہ نے مجموع الفتاوی میں فرمایا : مجدد کی علامات و شروط یہ ہیں کہ وہ علوم ظاہری و باطنی کا عالم ہو گا۔ اس کی تدریس و تالیف اور وعظ و نصیحت سے عام نفع ہو گا۔ وہ سنتوں کو زندہ کرنے اور بدعتوں کو مٹانے میں سرگرم ہو گا۔مجدد کے فرائض میں سے ہے کہ وہ کتاب و سنت کے مطابق ان اعمال کو زندہ کرے جو متروک ہو چکے ہوں، افراط و تفریط، تحریفات و تاویلات اور بدعات سے دین کو پاک کرے، حق و باطل میں تمیز کرا کے دین کو حضورؐ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور کے مطابق بنائے، اس کے ساتھ ساتھ اپنے روحانی فیضان سے لوگوں کو مستفیض کرے۔
جس طرح خلفائے راشدین ؓکو مقامِ نیابت اور حضور ؐ کا ظاہری و باطنی فیض حاصل تھا اور وہ ان فیوضات کو تقسیم کرنے والے تھے۔ جنھوں نے اسلامی نظام کے قیام کے ساتھ ساتھ روحانی فیضان سے بھی تشنگان ِحقیقت کو فیض یاب کیا۔ اسی طرح مجدد کو بھی حسب فرقِ مراتب’’ اولی الامر‘‘ کا مرتبہ و مقام حاصل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں وہ نظام اسلامی کو قائم کرنے کی کوششیں کرتا ہے اور اس بگاڑ کو ختم کرنے میں اپنی صلاحیتیں صرف کرتا ہے جو زمانہ گزرنے کے ساتھ پیدا ہو جاتا ہے،وہیں وہ باطنی فیض کو بھی تقسیم کرتا ہے اور اپنے وقت کے غوث و اقطاب و اوتاد، ابدال و نجباء اور اولیائے کاملین اس سے روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔ بلکہ ان اولیا کو جو مقام و مرتبہ ملتا ہے اس کے وسیلے سے ملتا ہے۔
مجدد چونکہ نظام اسلامی کو قائم کرنے میں کوشاں ہوتا ہے لہٰذا وہ اس سلسلے میں حائل ہونے والی طاغوتی اور باطل قوتوں کے خلاف نبرد آزما ہوتا ہے۔ وہ ان رکاوٹوں کو خاطر میں لائے بغیر اپنے مقصد کے حصول کے لیے سرگرم ِعمل ہوتا ہے۔ بالآخر وہ نظام اسلامی کو تمام بدعات و خرافات سے پاک کر کے اصل حالت میں لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔واضح رہے کہ مجدد کے لیے اپنی مجددیت کا اعلان کرنا لازم نہیں ہوتا ،بلکہ اس کے ہم عصر علما و صوفیا اس کے علم وفضل اور تجدیدی کام کو دیکھ کر اس کے مجدد ہونے کا حکم لگا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مجددین ؒ کی تجدیدی کوششوں کو ان کی زندگی میں معلوم نہ کیا جا سکا ،بلکہ بعد میں آنے والے علما نے ان کے مجدد ہونے کی تصدیق کی۔
حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو اس امت کا پہلا مجدد تسلیم کیا گیا ہے۔ان کی یہ مجددانہ شان ان کے امور ِحکومت کی انجام دہی سے ہی آشکارا ہونا شروع ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت سے پہلے جب کئی دیگر اعلیٰ عہدوں پر آپ کو فائز کیا گیا تو انھوں نے اپنی اس نیک نفسی اور خدا خوفی کی روش کو قائم رکھا۔
صفر 99ھ میں پچھلے خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی تجہیز و تکفین کا سامان کرنے کے بعد خود حضرت عمر بن عبدالعزیز نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور خود اس کو قبر میں اتارا ۔ تجہیز و تکفین کے بعد جب انھیں شاہی سواریاں پیش کی گئیں توحضرت عمر بن عبد العزیز نے یہ سواریاں واپس کر دیں اور فرمایا: میرے لیے میرا خچر ہی کافی ہے ۔
اس کے بعد پولیس افسر مع اپنے ساتھیوں کے حفاظت کے لیے آگے بڑھا تو آپ نے اس کو مع اس کے آدمیوں کو واپس کر دیا ۔ اور فرمایا: مجھے کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے، میں بھی تمام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں ۔
سلیمان بن عبدالملک کو دفن کرنے کے بعد عمر بن عبدالعزیز اپنے خچر پر سوار ہو کر واپس اپنے گھر تشریف لائے۔ واپسی پر لوگوں کا خیال تھا کہ آپ قصر ِشاہی میں قیام کریں گے۔ لیکن آپ نے کہا کہ وہاں سابق خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے اہل و عیال مقیم ہیں، میرا جانا وہاں مناسب نہیں۔ اس لیے آپ اپنے خیمے میں تشریف لے گئے ۔
بارِ خلافت سنبھالنے کے بعد منادی کروا دی کہ لوگ اپنے مال و جائیداد کے بارے میں اپنی شکایتیں پیش کر دیں، جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اسے زبردستی ہتھیا لیا گیا ہے۔ عہد ِخلافت سنبھالتے ہی ان کی زندگی میں بڑا تغیر آ گیا۔ انہوں نے گھر کا ایک ایک نگینہ بیت المال میں داخل کروا دیا، خاندان کے تمام وظائف بند کر دیے اور اپنی تمام سواریاں فروخت کر کے رقم بیت المال میں داخل کروا دی۔یہ کام بہت خطرناک اور نازک تھا، خود آپ کے پاس بڑی موروثی جاگیر تھی۔ بعض افراد نے آ کر آپ سے کہا کہ اگر آپ نے اپنی جاگیر واپس کر دی تو اولاد کی کفالت کیسے کریں گے؟ آپ نے فرمایا: ان کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔
آپ نے اعلان عام کروایا : اموی خلفا نے جس کے مال، جاگیر یا جائداد پر ناجائز قبضہ جما لیا ہے وہ ان کے حقداروں کو واپس کی جا رہی ہیں۔ اس اعلان کے بعد جاگیروں کی دستاویزات منگوائیں اور آپ کے ایک ماتحت ان دستاویزات کو نکال کر پڑھتے جاتے تھے اور حضرت عمر بن عبدالعزیز اسے پھاڑ پھاڑ کر پھینکتے جاتے تھے۔ آپ نے اپنی اور اہل خاندان کی ایک ایک جاگیر ان کے حق داروں کو واپس کر دی اور اس میں کسی کے ساتھ کسی قسم کی رعایت سے کام نہ لیا۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد سے خلفائے بنو امیہ کے یہاں دستور تھا کہ جب خلیفہ کا انتقال ہوتا تو اس کی استعمال شدہ اشیا اس کی اولاد کو ملتی تھیں اور غیر استعمال شدہ اشیا نئے خلیفہ کی ملکیت میں آجاتی تھیں، اہلِ خاندان نے اسی طریقے کے مطابق سلیمان بن عبدالملک کی اشیا کو تقسیم کرنا چاہا، لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیزنے ایسا کرنے سے منع کر دیا ۔ اور فرمایا: یہ اشیا نہ میری ہیں، نہ سلیمان کی اور نہ تمھاری- پھر اپنے غلام مزاحم کو حکم دیا : ان سب اشیا کو بیت المال میں جمع کر دو ۔
آپ کا زمانۂ خلافت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کی طرح بہت ہی مختصر تھا۔ لیکن جس طرح عہدِ صدیقیؓ بہت اہم زمانہ تھا اسی طرح حضرت عمر بن عبد العزیز کی خلافت کا زمانہ بھی عالم اسلام کے لیے قیمتی زمانہ تھا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ خلافت اسلامیہ کو خلافت راشدہ کے نمونے پر واپس لے آئے تھے، جس سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے زریں دور ِخلافت کے بعد خلفائے بنو امیہ عملی طور پر دور ہوتے جا رہے تھے۔
بعض لوگ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو تو ’’خلیفہ راشد‘‘ کہتے ہیں اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کوخلیفہ راشد کہنے سے احتراز کرتے ہیں، حالاں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر براہ راست سیدنا صدیق و فاروق و عثمان و حیدر رضی اللہ عنھم کا اثر تھا، جب کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خلافت کو ہم سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کا پر تو تو کہہ سکتے ہیں، ان سے افضل یا بہتر کسی صورت میں نہیں کہہ سکتے۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے تجدیدی کارناموں میں جہاں یہ بات تھی کہ انھوں نے منبر سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل ِ بیت کے بزرگوں کے خلاف ہونے والے طعن و تشنیع کے سلسلے کی حوصلہ شکنی کی اور اسے ختم کرا دیا تھا، جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بہت بعد دوسرے خلفائے بنو امیہ نے شروع کرایا تھا؛ اسی طرح ان کے دور کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ وہ ہر اس شخص کو بھی سخت سزائیں دیا کرتے تھے جوسیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں کسی قسم کی گستاخی کاارتکاب کیا کرتا تھا۔
یہ تھے آپ کے تجدیدی کارنامے، جن کی وجہ سے بالاتفاق آپ کو پہلی صدی کا مجدد تسلیم کیا گیا ہے۔