تعلیمی ادارے اور پرائیویٹ اساتذہ

16مارچ سے کروناوائرس کے باعث پورے ملک میں لاک ڈاؤن سے ہرشعبہ ِزندگی کے افراد کومشکلات کا سامنا ہے۔ خاص طور پر پرائیویٹ اداروں میں کام  کرنے والے ملازمین جو کہ بیروزگاری کی وجہ سے ان اداروں پر انحصار کئے ہوئے تھے۔ان میں 2لاکھ کے لگ بھگ وہ اساتذہ ہیں جوکہ پرائیویٹ اسکولو ں میں ملازمت کررہے تھے مگر لاک ڈاؤن کے باعث شدید مالی مشکلات کا سامناکررہے ہیں اوربے بسی سے ان پرائیویٹ اسکول انتظامیہ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ شاید ان کو رحم آجائے مگرپرائیویٹ اداروں کے منافع خور اور خوف خداسے عاری سربراہان جو حکومتی سفارشات کے مطابق والدین سے فیس تو بٹور رہے ہیں مگراساتذہ کی تنخواہیں ضبط کرکے   اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں ۔

ہمارے ملک میں تعلیمی نظام کی تنزلی کی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کے تعلیم کو منافع بخش کاروبار سمجھ کر کچھ لالچی لوگ بڑے بڑے پروجیکٹ سسٹمز کی برانچز خریدتے ہیں اور پھر کاروباری پیمانوں پر استوار کرکے خود تومنافع کماتے ہیں جبکہ بیروزگاری کے باعث مجبور نوجوان نسل کو کم تنخواہ پر ایک دیہاڑی دار ملازم کے طور پر استعمال کرتے ہیں ان کو پورا دن سات آ ٹھ گھنٹے کھڑے رہ کر پڑھانے پر مجبور کیاجاتا ہے مہینے میں ایک سیزیادہ رخصت کی سزا کے طور پر ان کی تنخواہ میں سے پیسے کاٹ لیے جاتے ہیں اور ان کومجرم گردان کر نفسیاتی طور پر دباؤ ڈالا جاتا ہے ایک طرف تو غربت اوربیروزگاری سے پریشان یہ لوگ حکومتی اورتعلیمی پالیسیوں سائنس اور آرٹس کے جھنجٹوں سے پریشان ہیں اور دوسری طرف پرائیویٹ مافیا۔

پرائیویٹ ایسوسی ایشن نازک صورتحال کے باوجود بار بار اسکول کھولنے کی دھمکیاں دیتی دکھا ئی دے رہی ہے لیکن مئی سے آ ج تک بہت سے رجسٹرڈ اور نان رجسٹرڈ اسکولز ایسے ہیں جنہوں نے اساتذہ کو تنخواہ دینے کا ذکر تک کرنا گوارہ نہیں کیا۔ ظاہری طور پر تویہ کیا جارہاہے کہ اساتذہ کو فیس کی وصولی کے بعد تنخواہیں دی جارہی ہیں مگر حقیقت اسکے برعکس ہے۔ چند اسکولزایسے ہیں جو اپنے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے 50 فیصد یعنی آدھی تنحواہ دے رہے ہیں مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پرائیویٹ اساتذہ کی کل تنخواہ اتنی کم ہے کہ انتہائی مشکل سے وہ اپنے خاندان کو پال رہے تھے، اب اتنی قلیل رقم کی بھی آدھی میں ان کا گزر کیسے ہو ہوگا۔

موجودہ صورتِ حال سے اور دن بہ دن کرونا  کے مزید کیسز رپورٹ ہونے سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ شاید لاک ڈاؤن میں مزید توسیع ہوجا ئے اور پورا سال ہی تعلیمی ادارے نہ کھل سکیں ۔واضح رہے کہ ہمارے ملک میں پرائیویٹ اداروں کی کثیر تعداد ہے اور لاکھوں لوگ جن میں ناصرف ٹیچنگ اسٹاف بلکہ نان ٹیچنگ اسٹاف، چوکیدار آیا، خاکروب وغیرہ بھی ان اداروں سے منسلک ہیں۔ پرائیویٹ اسکو لز میں پڑھانے والے اساتذہ میں اعلی تعلیم یافتہ اور محنتی اساتذہ کرام شا مل ہیں، مگر آج بیروزگاری کی وجہ سے وقت کی چکی میں پیس رہے ہیں۔

ان کی تنخواہ ان کی تعلیم اور تجربے کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے ہمارے ہاں ناصرف تعلیم کے شعبے میں بلکہ ہر شعبے میں قابل اور محنتی افراد کوآگے بڑھنے کا مو قع نہیں ملتا اور کاہل،نکمے لوگ اعلی عہدوں پر برا جمان ہو جاتے ہیں۔اس وقت تقریباً 5۔1ملین استاتذہ پرائیویٹ اداروں میں پڑھا رہے ہیں۔ ملک میں غربت اور بیروزگاری کی شرح میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اور اس بیروزگار طبقے میں زیادہ تر تعلیم یافتہ افراد شامل ہیں اگر ریاست ان افراد کو نوکریاں فراہم کر سکتی تو کم ازکم پرائیویٹ اداروں کو پابندتو کر سکتی ہے کہ ہر استاد کو معقول تنخواہ دی جا سکے پرائیویٹ ایسوسی ایشن کو استاتذہ کی مشکلات کو حل کرنے اور ان کو تنخواہ کی بنیاد پر اسکولز سے فارغ کرنے کے خلاف سختی سے نوٹس تو لے سکتی ہے۔

دنیا کے ہر ملک میں جن میں یورپین ممالک بھی شامل ہی استا تذہ کے احترام کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ان کی مالی معاونت کی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں صرف پرائیویٹ اور سرکاری استاد کا ٹیگ لگا کر استاد کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے ان مشکل حالات میں سرکاری اساتذہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ہزاروں کے حساب سے تنخواہ وصول کر رہے ہیں جبکہ سفید پوش اور بے بس پرائیویٹ اساتذہ چپ سادھے ہوئے ہیں کیا ان استاتذہ کے خاندان نہیں ہیں ان کی ضروریات کیسے پوری ہوتی ہونگی کیا ان کے بچے ان سے فرمائش نہیں کرتے ہونگے ۔

حکومت نے تو بیس فیصد فیس کی رعائیت کر دی مگر پرائیویٹ اسکولز کے سربراہان نے اساتذہ کوپچاس فیصد تنخواہ دینا بھی گوارہ نہیں کی مارچ سے اب تک ملک کے نامی گرامی برانڈز کی کچھ برانچوں میں تو پرنسپل صاحبان انتہائی بے رخی سے اساتذہ کو فارغ کرنے کی یہ کہتے ہوئے کہ جب حالات ٹھیک ہوں گے تو دیکھا جائے گا اور نیا اسٹاف رکھ لیں گے، تک کی دھمکیاں بھی دے چکے ہیں۔ سفاکیت کی انتہا ہے نہ تو حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے نہ پرائیویٹ اداروں کے کرتا دھرتا۔ ہمارے ہاں ہر کو ئی اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولز میں پڑھا کر آفیسر ز تو بنانا چاہتا ہے مگر استاد کے بنیادی حقوق سلب کرکہ۔ جس معاشرے میں استاد کو ادب و احترام نہ دیا جاتا ہو وہ معاشرہ کیسے تر قی کر سکتا ہے۔

جواب چھوڑ دیں