لاک ڈاؤن میں عید

عید کا دن مسلمانوں کیلئے خوشیوں اور مسرتوں کا دن ہے، انعام کا دن ہے، جو ہمیں اپنے پروردگار کی طرف سے دیا گیا ہے۔ عید کے دن مسرت کی ہوا رقص کرتی ہے۔ عید کا تہوار ہمیں خدا پرستی، الفت و محبت، ہمدردی، خیر خواہی اور بھائی چارے کی پاکیزہ روح سے منور کرنا چاہتا ہے۔ عید کا دن غریبوں، مسکینوں، محتاجوں اور بیواؤں کے ساتھ احسان وسلوک کا دن ہے۔

عید مسرت و شادمانی کا دن ہے اور اِس میں ہر امیر و غریب نیز خاص و عام کی شرکت ضروری ہے۔ عید کی روح عبدیت، اِجتماعیت واِتحاد میں مضمر ہے۔ عید الفطر مسلمانوں کا مقدس ترین تہوار ہے۔ یہ دن ہماری دینی و ملی شان و شوکت کا مظہر ہے۔ عید دنیا کے تمام مسلمانوں کو ظہورِ اسلام، نماز، روزہ، زکوۃ کی فرضیت اور فتح بدر کی یاد دلاتی ہے۔ عید کی تہوار کی خوشی کا مقصد ماہِ رمضان کے بابرکت ایام میں خدا کے احکام کی تعمیل و تکمیل کی توفیق ملنے پر بارگاہِ الٰہی میں سجدہ شکر ادا کرنا ہوتا ہے۔

جہاں عید اظہارِ مسرت کا دن ہے، جشن منانے کا دن ہے وہیں عید مسلمانوں کی وحدت کا پیغام بھی ہے۔ برادرانِ ملت کو یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ آپ بامقصد ملت ہیں اور بامقصد ملت کے تہوار بھی بامقصد ہوتے ہیں۔ عید کے دن ہمیں یہ درس بھی ملتا ہے کہ وہ خوشی حقیقی خوشی نہیں کہلا سکتی جس میں پورے سماج، پورے معاشرے کو شامل نہ کیا جائے۔

اِسی بات کو سمجھانے کیلئے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز عید الفطر کے ساتھ صدقۃ الفطر ادا کرنے کا بھی حکم دیا تاکہ سماج کے غریب اورمفلوک الحال لوگ بھی عید کی خوشیوں کے حصہ دار بن سکیں۔ عیدالفطر کا دن اللہ تعالیٰ کی جانب سے میزبانی کا دن ہے، اللہ تعالی کے انعام دینے کا دن ہے۔ اِس دن کوئی آدمی بھوکا نہیں رہتا۔ عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص اِس دن خوشی منانے کے بجائے روزہ رکھ کر خود کو زیادہ متقی و پرہیزگار ظاہر کرنے کی کوشش کرے تو وہ شریعت کی نگاہ میں نافرمان مانا جائے گا۔

اِسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، ’’خدا کی قسم وہ مومن نہیں، جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اُس کا پڑوسی اُس کے پہلو میں بھوک سے کروٹیں بدلتا رہے۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، ’’ماہِ رمضان کا روزہ آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتا ہے اور بغیر صدقہ فطر کے اوپر نہیں اُٹھایا جاتا۔

صدقہ فطر غرباء کے کھانے کی غرض سے مقرر کیا گیا ہے اور اِسلئے (بھی) مقرر کیا گیا ہے کہ روزوں میں جو کوتاہی ہو گئی ہو وہ دور ہو جائے۔ روزوں میں کبھی لغو اور بیہودہ بات ہو جاتی ہے وہ صدقہ فطر سے معاف ہو جائے۔‘‘ اِسلئے عید سعید کے موقع پر ہمیں خوشیاں منانے یا خوشیاں پانے سے زیادہ خوشیاں بانٹنا چاہئے، اور اپنی خوشیوں میں غرباء و مساکین اور محتاجوں کو بھی شامل کرنا چاہئے کیونکہ یہ خوشیاں ہی تو زندگی کی راہوں میں تازگی اور مسرتوں کے چراغ ہیں۔ اگر اُن کی روشنی دوسروں کی راہوں میں بکھیر دی جائے تو اُن میں کمی نہیں ہوگی۔

عید الفطر کا دن اِس اعتبار سے بے حد اہم ہے کہ آغاز اسلام سے آج تک عید منائی جارہی ہے۔ تاریخ کا یہ طویل وقفہ اپنے دامن میں عبرت انگیز انقلابات اور نصیحت آموز واقعات کی ایک دنیا سمیٹے ہوئے ہے۔ عید کا دن اسلامی اِجتماعیت اور اِتحاد و اتفاق کا آئینہ دار ہے۔ دنیا کی ہر قوم اور مذہب کے ماننے والے کسی نہ کسی صورت میں سال میں چند دن تہوار مناتے ہیں۔ ہر قوم اور مذہب و ملت کے لوگ یہ تہوار اپنے عقائد، روایات اور ثقافتی اقدار کے مطابق مناتے ہیں۔ لیکن اِس سے یہ حقیقت ضرور واضح ہوتی ہے کہ تصورِ عید انسانی فطرت کا تقاضہ اور انسانیت کی ایک قدرِ مشترک ہے۔

عید کا دن کھیل تماشے کا دن نہیں ہے بلکہ ایک سنجیدہ تہوار کا دن ہے۔ عید کو شرافت اور اخلاقی تقاضوں کے ساتھ منانے کا حکم ہے۔ عید کے دن اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اِسلئے عید کے دن کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق گزارنا چاہئے۔ عید کو اِس طرح منانا چاہئے کہ اِس کے ذریعہ سے خوشگواری میں اضافہ ہو۔ سچی عید وہی ہے جو ساری انسانیت کیلئے عید کا دن بن جائے۔

عید کی مسرتوں کے حقیقی حقدار وہی لوگ ہیں جنہوں نے رمضان المبارک کا تہ دل سے احترام کیا۔ اُس کے دنوں کو روزوں، تلاوتوں، عبادتوں اور خیر خیرات سے معمور کیا اور اُس کی شبوں کو قیام اللیل، تراویح، ذکر و اذکار اور دعا و مناجات میں صرف کیا۔ محبوب سبحانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں لکھتے ہیں، ’’عید اُن کی نہیں جنہوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا بلکہ عید اُن لوگوں کی ہے جو خدا کی وعید اور پکڑ سے بچ گئے اور اُس کے عذاب سے ڈر گئے۔

عید اُن کی نہیں جنہوں نے بہت سی خوشیاں منائیں اور اُس پر قائم رہے۔ عید اُن کی نہیں جنہوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھائیں اور بہت سے کھانے پکائے بلکہ عید تو اُن کی ہے جنہوں نے مقدور بھر نیک بننے کی کوشش کی اور سعادت حاصل کی۔ عید اُن کی نہیں جو دنیاوی زندگی کے ساتھ نِکلے بلکہ عید تو اُن کی ہے جنہوں نے تقویٰ اور خوفِ خداوندی کو اختیار کیا۔‘‘

اِس وقت پورے ملک میں جاری لاک ڈاؤن کے مد نظر مساجد بند ہیں۔ ماہِ رمضان میں مسلمانوں نے نمازِ پنجگانا اور نمازِ تراویح گھروں میں ادا کیں۔ ماہِ رمضان میں پابندیون کے سبب بیشتر اوقات لوگ گھروں میں قید رہے۔ اُن کی تمنا تھی کہ شاید عید کی نماز اُنہیں مسجد میں ادا کرنے کا موقع ملے گا تاہم حالات نے اِس کی اجازت نہیں دی۔ علماء کرام کی جانب سے مسلمانوں کو واضح ہدایت دی گئی کہ وہ عید کی نماز اپنے گھروں پر ہی ادا کریں۔

اگر کسی وجہ سے عید کی نماز کی کوئی صورت نہیں بن پاتی ہے تو وہ پریشان نہ ہوں، مجبوری کے سبب اُن پر نمازِ عید معافی ہوگی۔ البتہ ایسے افراد جو نمازِعید نہ پڑھ پائیں وہ اپنے اپنے گھروں میں دویا چار رکعت پر مشتمل نمازِ چاشت کا اہتمام کریں تو بہتر ہوگا۔ تاریخ میں اِس طرح کی شاید یہ پہلی عید ہے۔ کسی نے ایسی عید کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ یہ پہلی عید ہے جب لوگ گلے ملنا تو دور مصافحہ کرنے سے بھی کتراتے ہوئے نظر آئے۔

عید میں بڑے تو شاداں و فرحاں ہوتے ہی ہیں بچوں کی خوشیاں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن لاک ڈاؤن کے سبب اِس بار ماہِ رمضان میں مذہبی اِجتماعات پر پابندی عائد رہی۔ چونکہ لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا حکومت کی جانب سے ممنوع قرار دیا گیا ہے، عید پر نئے کپڑے وغیرہ نہیں خریدے جا سکے۔ بیماری کے پھیلنے کا سبب اور اندیشہ جان کر مساجد میں جہاں لوگ باجماعت نمازوں سے محروم رہے وہیں جُمعتہ الوداع اور عید کی نماز بھی گھروں میں ادا کی گئی۔

علماء کرام نے بھی اِس بار سادہ طریقے سے عید منانے کی تلقین کرتے ہوئے سماجی فاصلہ کی خاص تاکید کی۔ اپنے تاکیدی بیان میں مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا، ’’لوگ باگ اپنے اپنے گھروں میں عید کی نماز ادا کریں۔ عید کے دن سب لوگ اپنے گھروں ہی پر سویاں کھائیں، گھروں پر ہی خوشیاں منائیں۔ کوئی کسی کے بھی گھر ملنے نہ جائے، اپنے گھر کے باہر نہ جائے۔ نہ کسی سے ہاتھ ملایا جائے اور نہ کسی سے گلے ملا جائے۔‘‘ قارئینِ کرام! ہمارے پاس اِن ساری اپیلوں کو قبول کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ نہ تھا، نہ ہے۔

کہتے ہیں کہ عید بچوں کی ہوتی ہے۔ بچوں کا سجنا سنورنا، رنگ برنگی چشمے، چمک دھمک کے کپڑے، ہاتھ میں کڑک کڑک عیدی کے نوٹ، باہر چیزیں کھانا، کھلونوں کی دوکانوں پر جمع ہونا، اونٹ یا گھوڑے کی سواری کرنا اور کیا! بس مزے ہی مزے۔ اُسی روایت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں بچے اِس مخفی وائرس کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پورے رمضان اپنی منصوبہ بندیوں میں مصروف تھے۔

فلاں کپڑے اورفلاں جوتے پہنیں گے، فلاں کے گھرجائیں گے، فلاں دوستوں سے ملیں گے اورفلاں جگہ سیر سپاٹا کریں گے مگر خواب تھا کہ چکنا چور ہو گیا اور بچوں کی ساری پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی۔ صرف بچوں کی ہی نہیں بڑوں کی بھی پلاننگ پر پانی پھر گیا۔ اور چند لوگوں سے کہیں ملاقات ہوئی تو اُس میں بھی ایک مختلف سی کیفیت کا تجربہ ہوا۔ رشتہ داروں سے ملنا تو دور آس پڑوس کے لوگوں سے ملتے وقت یہ کھٹکا لگا رہا کہ سامنے والا شخص کہیں اِس مخفی بیماری کا مریض نہ ہو؟

اِس عید میں بخوبی اندازہ ہوا کہ واقعی، لاک ڈاؤن والی عید کی بہ نسبت عام دِنوں کی عید کس قدر خوشگوار ہوتی ہے۔ فضا میں چہار جانب تکبیر کی گونجتی آوازیں۔ سجی دھجی پُر بہار مساجد، عید گاہ کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے جوق در جوق نمازی۔ صبح صبح نئے نویلے کپڑوں میں تیار ہو کر بڑوں کے ہمراہ عید کی نماز کیلئے جاتے چھوٹے بچے۔ نماز سے فارغ ہو کر دوستوں سے ملاقاتوں کا ایک طویل سلسلہ۔ محلہ میں ایک دوسرے کے گھر جاکر ملاقاتیں اور ضیافتیں۔ دوست احباب اور اہل خانہ کے ساتھ تفریحی اور سیاحتی مقامات کی سیر۔

یہ سارے خوشنما مناظر دیوانے کا خواب ثابت ہوئے کہ ملک کے تمام تر تفریحی اور سیاحتی مقامات بالکل ویران پڑے ہیں۔ عید کی خریداری کیلئے بازاروں میں بھیڑ ایسی ہوتی تھی کہ تِل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی پر اب ہو کا عالم رہا، سناٹے رہے اور خاموشی رہی۔ رمضان اور عید کی رونقیں ماند پڑ گئیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم کہیں آ جا تو نہیں سکتے مگر اپنے گھروں میں عید کے من پسند پکوان بنا کر محفوظ رہ کر اُن کا لطف اُٹھا سکتے ہیں کہ اِس پر تو کوئی پابندی نہیں ہے۔ اپنا اور اپنوں کا بہت خیال رکھیں

جواب چھوڑ دیں