اتنی رات گئے یہ کون دستک دے رہا ہے ۔۔دیکھو بیٹے دروازے پر کوئی آیا ہے ۔ میں نے کہا کون ۔۔جی الخدمت کی طرف سے آئے ہیں ، آپ کے لیے سحری لے کر ، باہر سے آواز آئی دروازہ کھولا تو کئی نوجوان ہاتھوں میں ٹوکریاں پکڑے جن میں روٹیاں اور سالن کے پیکٹس تھے اور الخدمت کی جیکٹ پہنے کھڑے تھے ۔ ان میں سے ایک پیکٹ نوجوان نے میری طرف بڑھایا میں شکریہ اداکرکے ان کو کہا کہ میرے پڑوس میں ایک مزور رہتا ہے لاک ڈاؤن کی وجہ سے مشکل سے گزارا ہوتاہے ان کو دے دیں ۔وہ نوجوان سلام کرکے پڑوسی کے گھر کی طرف بڑھ گیا ۔رات کافی ہوچکی تھی میں اپنی چارپائی پر آکر لیٹ گیا ۔ الخدمت کا نام تو پہلے بھی سنا تھا میرے لیے یہ کوئی نیا نام نہیں تھا ۔شہر میں کئی ہسپتال اور شفا خانے اس نام سے کام کررہے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی دیگر شعبہ ہائے زندگی میں الخدمت کا کام دیکھنے میں آتاہے ۔اس کام کاآغاز قیام پاکستان کے بعد سے ہی شروع کیا گیا جب ہندوستان سے لٹے پٹے مسلمانوں کے قافلے پاکستان میں داخل ہورہے تھے۔ مسلمان اپنے اسے وطن کی خاطر اپنا گھر کاروبار حتٰی کہ اپنی جان بھی قربان کررہے تھے اس وطن میں داخل ہونےکے لیے جس کی بنیاد کلمہ طیبہ تھا ان کو یقین تھا کہ جہاں وہ اپنی زندگی اسلام کے مطابق گزار سکیں گے۔ کوئی اس ہجرت میں جان سے گیا کسی کی عزت تار تار ہوئی کوئی مال ومتاع سے محروم ہوا یہ سب مہاجرین کیمپوں میں ٹہرائے گئے چونکہ نومولود اس ریاست میں وسائل کی شدید کمی تھی ان کیمپوں میں رہایش پذیر مہاجرین کی حالت نہایت توجہ طلب تھی ۔ خوراک ،علاج معالجہ،کیمپوں کی صفائی ستھرائی اور دیگر اس طرح کے بنیادی ضروریات تھیں ایسے میں پہلی بار بغیر نام سے الخدمت نے کام شروع کیا ۔ان رضا کاروں میں پڑھے لکھے امیر و غریب تمام لوگ شامل تھے جو ان مہاجربھائیوں کی خدمت کررہے تھے ۔خوراک ،علاج معالجہ دیکھ بھال اور کیمپوں کی صفائی کا انتظام خود کررہے تھے ۔ پڑھے لکھے اور صاف ستھرے لوگ بڑے سلیقے سے کیمپوں کی صفائی ستھرائی میں مصروف نظر آتے ۔بڑی محبت کے ساتھ لوگوں تک خوراک پہنچاتے ۔ ا س کے علاوہ وہ لوگوں کو تعلیم تربیت سے بھی بے خبر نہ تھے ۔ان کی تعلیم تربیت کابھی انتظام کرتے۔
مہاجرین کی آمد کے بعد ان کی آباد کاری کا مسئلہ بھی ان کے پیش نظر تھا کئی دھائیوں تک ان ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے بھائیوں کی آباد کاری کی گئی ان کو مکانات تعمیر کرکے ان کو چھت مہیا کی گئی مٹی اور گارے کے مکانات سخت دھوپ میں یہی الخدمت کے رضاکار اپنے ہاتھوں سے تعمیر کرتے ان مکانات میں راشن کا انتظام کرتے آج بھی وہ مکان اور ان وہ علاقے پاکستان میں موجود ہیں ۔جن میں رہنے والے لوگ اس بات کے گواہ ہیں ۔ الخدمت کے ان رضاکاروں میں جہاں عام الخدمت کے رضاکار تھے اس میں صوبائی و قومی اسمبلیوں کے رکن بھی تھے جو کہ ان لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات پہنچانے اور ان کی خبر گیری نظر آتے ۔خدمت کا یہ سفر جاری رہا ۔۔۔۔تعصب کی آندھی چلی مگر یہ خدمت کی شمع جلتی رہی ۔
مئیر عبداستار افغانی کا ذکر کئے بغیر الخدمت کی داستان ادھوری رہےگی لیاری میں پیدا ہونے والے اس کارکن نے دوبار اس شہر میں خدمت کی مثال قائم کی اس شہر کا بہترین منصوبہ بندی کرکے بسایا اس شہر کو عروس البلاد بنادیا جس میں امن تھا ، روز گار تھا اور جس کی راتیں جاگتی تھیں ۔ زندگی کے ہرشعبے میں اس مرد قلندر نے گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کو لوگ بابائے کراچی کے نام سے جانتے ہیں۔
سن 2000 میں کراچی شہر کی نظامت الخدمت کے صدر نعمت اللہ خان کے سپرد کی گئی آپ شہر کراچی کے پہلے ناظم منتخب ہوئے آپ نے اپنی روایت کے مطابق بلا تفریق شہر کراچی کی خدمت کی دن رات کی جدوجہد کے بعد اس شہر کو دوبارہ عروس البلاد بنایا اور شہر کا نقشہ تبدیل کرکے رکھ دیا ۔ ان کی خدمت کی گواہی ان کے جنازے میں آئے اپنے پرائے سب ہی دے رہے تھے ۔آنکھیں اشک بار تھیں لوگ کہ رہے تھے کہ آج کراچی اپنےمحسن سے محروم ہوگیا۔
2005 میں آنے والے زلزلے نے شمالی علاقہ جات میں ایک ہولناک تباہی مچادی اس صورتحال میں بھی ملک بھر کے الخدمت کے رضاکاروں نے اپنے ہم وطن بھائیوں کی مد د کےلیے شمالی علاقوں کا رخ کیا اور دن رات محنت کرکے بے گھر افراد کو دوبارہ آباد کیا زخمیوں کے زخم پر مرہم رکھا یہ تباہی اتنی بڑی تھی کہ کئی سال تک یہ خدمت کا سلسلہ جاری رہا خدمت کے اس سفر کو پہاڑوں کی بلندی اور دریاؤں کی تندو تیز لہریں بھی نہ روک سکیں ۔الخدمت کے یہ رضاکار اور کراچی کی خدمت کرنے والا نعمت اللہ خان بلند بالا پہاڑوں کی چوٹیوں اور دریاؤں پر اپنا فریضہ انجام دیتے ہوئے دیکھے گئے۔
اس طرح کی فلاحی تنظیمیں اور ادارے اور ان کے بے لوث کارکن کسی بھی ملک و قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اور اللہ کی رحمت ہوتے ہیں جب لوگ عید قرباں کے موقع پر لوگ اپنے گھروں عید کی خوشیاں منارہے ہوتے ہیں ۔ صاف ستھرے کپڑے پہن کر اپنے رشتہ دارسے ملنے جاتے ہیں ۔ یہ الخدمت کے رضاکار قربانی کے جانوروں کی کھالیں جمع کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں ۔ گھر گھر اور در در دستک دے کر کھالیں جمع کرتے ہیں تاکہ ان سے حاصل ہونے والی رقم سے سال بھر الخدمت کی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں ۔ اسی کام میں تین دن پوری دل جمعی کے ساتھ اپنے صاف ستھرے کپڑے خون آلود ہونے کی پروا کئے بغیر اس کام کو کرتے ہیں۔
آج بھی جب کہ پوری دنیا ایک ہولناک معاشی تباہی سے دوچار ہے بھوک اور افلاس نے وطن عزیز پر اپنی چادریں پھیلارکھی ہے ۔ الخدمت مصروف خدمت ہے ہر رضاکار دن رات کام میں مصروف ہے پورے شہر میں کہیں افطاری ،کہیں راشن ، کہیں سحری ، کہیں بچت بازار ،کہیں عید کی خوشیاں بانٹنے عید گفٹ کی تقسیم اور کہیں سستی روٹی کے تندور لگائے گئے ہیں تاکہ کوئی وطن عزیر کا فرد بھوکا نہ سوئے ۔لیکن کہتے ہیں کہ ایسا کوئی انسان نہیں جس کا کوئ دشمن نہ ہو،اس خدمت کے سفر میں ابھی گذشتہ دنوں انسانیت اور خدمت خلق کے ان دشمنوں نے جوکہ اپنی جھوٹی شہرت چاہتے تھے ایک الخدمت کے رضاکار کو شہید کرکے اس سفر کو روکنا چاہو مگر ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی پہلے سے زیادہ تحرک کے ساتھ خدمت کا یہ سلسلہ جاری ہے ۔
پوری دنیا کے وہ انسان جو کہ انسانیت کا درد رکھتے ہیں ان کو الخدمت کے اس سفر میں معاون و مدد گار بننا چاہیئے تاکہ یہ کام موجودہ حالات کے تناظر میں تیزی سے کیاجاسکے ۔ کیونکہ خلق کی خدمت رب کی رضا ہے ۔