حال ہی میں اختتام پزیر ہونے والی چین کی سب سے بڑی سیاسی سرگرمی “دو اجلاسوں” کے دوران سیاسی قیادت نے رواں برس ہر اعتبار سے ایک اعتدال پسند خوشحال معاشرے کی تعمیر کا عزم ظاہر کیا ہے جسمیں غربت کے خاتمے ، روزگار کی دستیابی اور بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو اولین ترجیح حاصل رہے گی۔سال دو ہزار بیس ، چین میں انسداد غربت کی تکمیل کاعرصہ بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ چین کی اعلیٰ قیادت وبا کی روک تھام کے ساتھ ساتھ غربت کے خاتمے کے لیے جاری اقدامات کی کڑی نگرانی کر رہی ہے۔
غربت کے خاتمے کی کوششوں میں جن شعبہ جات پر زیادہ توجہ مرکوز کی جائے گی ان میں صنعتی ترقی کا فروغ اور روزگار کی مستحکم فراہمی نمایاں عوامل ہیں۔چینی صدر شی جن پھنگ جب بھی اقتصادی سماجی ترقی کی بات کرتے ہیں تو اس میں انسداد غربت اُن کی بات چیت کا کلیدی نکتہ رہتا ہے۔اس ضمن میں یہ ہدف طے کیا گیا ہے کہ ہر اعتبار سے ایک اعتدال پسند خوشحال معاشرے کی تکمیل کے سفر میں کوئی ایک بھی قومیت ،خاندان یا فرد غربت کا شکار نہ رہے اور ترقی کے عمل میں شامل رہے۔
دو ہزار تیرہ میں شی جن پھنگ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسداد غربت میں ایک” ٹارگٹڈ اپروچ” اپنائی جائے۔اس مہم کے دوران اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ سرکاری حکام غربت کے شکار افراد کو نہ صرف امداد فراہم کریں بلکہ ایسے ذرائع تلاش کریں جس سے پائیدار آمدنی کامستقلحصول ممکن ہو سکے۔مربوط اور موئثر پالیسی سازی سے غربت کے خاتمے کی کوششوں کو مخصوص حالات اور جغرافیے سے ہم آہنگ کیا گیا اور بلند و بانگ نعروں یا دعووں سے اجتناب کرتے ہوئے عملی اقدامات پر توجہ مرکوز کی گئی۔
صدر شی جن پھنگ نے غربت کے شکار دیہی علاقوں کا خود دورہ کیا ،انسداد غربت سے متعلق اہم اجلاسوں کی صدارت کرتے ہوئے رہنماء ہدایات جاری کیں اور نچلی سطح پر فعال حکام اور شہریوں کی حوصلہ افزائی کی تاکہ غربت سے چھٹکارہ پایا جا سکے۔ دو ہزار بارہ میں چین بھر میں غربت کے شکار افراد کی تعداد تقریباً نو کروڑ سے زائد تھی جس میں سالانہ بنیادوں پر کمی لاتے ہوئے سال دو ہزار انیس کے اواخر تک یہ تعداد صرف پچپن لاکھ تک رہ گئی ہے۔دیہی علاقوں میں غربت کے خاتمے کے تحت لوگوں کی جدید سہولیات سے آراستہ علاقوں میں منتقلی سمیت انہیں زرائع آمد و رفت ، تعلیم ،ٹیلی مواصلات ،طب ،بجلی ،شفاف پانی سمیت دیگر بنیادی ضروریات زندگی بھی فراہم کی گئیں۔
بلاشبہ چین رواں برس انسداد غربت کے حوالے سے ایک تاریخ رقم کرنے جا رہا ہے۔ایک ایسا ملک جس کو کئی دہائیوں سے غربت کا سامنا رہا ہے ، اس وقت وہ غربت کے مکمل خاتمے کے سنگ میل کے انتہائی قریب پہنچ چکا ہے۔یہ امر قابل زکر ہے کہ چین میں اصلاحات اور کھلے پن کے گزشتہ چالیس برسوں کے دوران 80 کروڑ سے زائد افراد کو غربت کی لکیر سے باہر نکالا گیا ہے جو مجموعی طور پر دنیا کا ستر فیصد سے زائد ہے۔سال دو ہزار بارہ میں شروع ہونے والا یہ سفر گزشتہ سات برسوں سے مسلسل جاری ہے ، اس دوران غربت کی شرح کو 10.2 فیصد کی سطح سے 0.6 فیصد کی سطح تک لایا گیا ہے۔
عالمی ماہرین بھی چین کی اس کامیابی کو جدید انسانی تاریخ میں ایک معجزہ قرار دیتے ہیں۔چینی قیادت کی خوبی یہ بھی رہی کہ انسداد غربت کی مہم میں کبھی نرمی نہیں لائی گئی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی غیر ذمہ داری یا لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔اس وقت عالمگیر وبائی صورتحال کے دوران بھی چینی حکومت ایسی معاون پالیسیاں ترتیب دے رہی ہے جس سے ایک جانب جہاں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ غربت کا مکمل خاتمہ کیا جائے تو دوسری جانب غربت سے نجات پانے والے افراد کے دوبارہ غربت کی دلدل میں پھنسنے کے خطرات کا بھی تدارک کیا جائے گا۔ دیہی باشندوں کو روزگار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ طبی سہولیات ،معیاری رہائش اور دیگر بنیادی سہولیات تک رسائی کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔ اگرچہ وبا کے باعث چین میں انسداد وبا کی کوششیں متاثر ضرور ہوئی ہیں لیکن چینی حکومت نے انسداد غربت کے ہدف میں کوئی ترمیم نہیں کی ہے جس کا مطلب اقدامات میں تیزی لاتے ہوئے فیصلہ کن منزل کا حصول ہے۔
دنیا کے کئی ممالک انسداد غربت کے لیے جہاں چین کے اقدامات کو سراہتے ہیں وہاں چین کے تجربات سے سیکھنے کے بھی متمنی ہیں۔ اقوام متحدہ کے دو ہزار تیس کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں غربت کا خاتمہ بھی ایک اہم ہدف ہے ، اگر چین رواں برس یہ ہدف حاصل کر لیتا ہے تو دس برس قبل منزل مقصود کا حصول یقیناً ایک تاریخی سنگ میل ہو گا۔چین نے دنیا کو بتایا کہ کیسے اقتصادی سماجی پالیسی سازی سے کروڑوں لوگوں کو غربت کی لکیر سے نکالتے ہوئے ترقی کا سفر جاری رکھا جا سکتا ہے۔غربت کے خاتمے کی کوششوں میں عوام کی مستحکم طویل المدتی خوشحالی بھی چین کی پالیسی کا مرکزی نکتہ رہی ہے۔
دیہی علاقوں میں مقامی صنعتوں کی ترقی کو اہمیت دی گئی اور زراعت سمیت چھوٹے پیمانے پر کاروبار کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ عام طور پر لوگوں کی اپنے آبائی علاقوں سے دیگر مقامات پر منتقلی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے مگر چینی حکومت کے مثبت اقدامات کی بدولت لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔لوگوں کی آبادکاری کے ساتھ ساتھ انہیں روزگار اور فنی تربیت بھی فراہم کی گئی ہے۔ زرعی سیاحت ،سبزیوں پھلوں کی کاشت ، مویشی بانی ، مقامی دستکاریوں سمیت انسداد غربت سے وابستہ دیگر صنعتوں کو ترقی دی گئی تاکہ شہریوں کی مستقل آمدن کا بہتر انتظام کیا جا سکے۔
اگرچہ چینی حکومت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں آبادی ایسے افراد پر بھی مشتمل ہے جن کے پاس ہنر مند یا پیشہ ورانہ صلاحیتیں محدود ہیں ،معمر اور معذورافراد بھی آبادی میں شامل ہیں، بعض علاقوں میں قدرتی وسائل کم ہیں اورکچھ علاقوں میں قدرتی اورماحولیاتی تبدیلیوں کےباعث پیداہونےوالےمسائل موجود ہیں لیکن ان تمام چیلنجز کے باوجود چینی قیادت کی جانب سے گزشتہ تین چار دہائیوں کے دوران کیے جانے والے اقدامات کی روشنی میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ چین غربت کے مکمل خاتمے کی کوششوں کا ہدف حاصل کر لے گا۔
چینی قیادت کی جانب سے غربت کے خاتمے کی کوششوں میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں کا تبادلہ دنیا کے ترقی پزیر ممالک سے بھی جاری ہے کیونکہ چین کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہےکہ دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک بھی عالمی ترقی کی عمل میں شامل ہوسکیں اورغربت کا خاتمہ کیےبغیراقوام متحدہ کےدوہزارتیس کے پائیدار ترقیاتی اہداف کاحصول بھی ناممکن ہے۔چین نےایک ترقی پزیر ملک کی حیثیت سےغربت کو شکست دی ہےجو یقینی طورپرجہاں لائق تحسین ہےوہاں پاکستان سمیت دیگرکم ترقی یافتہ ممالک کےلیےامید کی ایک کرن ہے۔ترقی پزیراورپسماندہ ممالک اپنی سماجی خصوصیات کےتحت چینی ماڈل سے سیکھتے ہوئے غربت کے خاتمے سے اپنے عوام کو خوشحالی کی جانب لے جا سکتے ہیں۔