دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
زر ،زن کا مشتاق انسان ان دو چیزوں کے حصول میں اپنی زندگی بسر کرنے کی کوشش میں محورہتاہے ۔ان دونوں نعمتوں کا حصول از بس ضروری ہے۔ زن کا حصول شرعی نکاح کی صورت میں نصف ایمان کی تکمیل کے مترادف ہے ۔بصورت دیگرلھوولعب کے ماسوا کچھ نہیں ۔زر کی خواہش فطری عمل ہے ۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے یہ دعاکثرت سے مانگا کرتے ’’ اے اللہ ہمیں دنیا میں (بہترین نعمتیں ) عطافرما اورآخرت میں بھی اورہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما ۔دانا آدمی وہ ہے جو دین اوردنیا کے درمیان اپنے معاملات کو لے کر چلے ۔دین کے امور میں اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرے ،نافرمانی سے توبہ کرے ۔اور دنیاوی امور میں رزق حلال کی کوشش کرے اورمحتاجی اورسوال سے پناہ طلب کرے ۔اسلام رہبانیت ،بخل ،بزدلی اورمیدان جنگ سے دم دباکر بھاگنے والوں کی مذمت کرتاہے ۔اسلام عدل وانصاف اوراحترا م انسانیت کا داعی ہے ۔
سیدنا عمربن عبدلعزیز رحمہ اللہ نے اسلام کے اس عظیم آفاقی منہج کو عالمی افق پر احسن طریق سے نافذ کیا ۔آپ کا شجرہ نصب یہ ہے ۔عمربن عبدالعزیز ابن مروان بن الحکم بن ابی العاص ،بن امیہ بن عبدا لشمس اور انکی والدہ ام عاصم بنت عاصم بن عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ بن نفیل بن عدی بن کعب میں سے تھیں ۔ابن سعد رحمہ اللہ کے نزدیک آپ کی ولادت باسعادت 63ھ میں ہوئی اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ امہات المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی ۔(طبقات ابن سعد۵،۲۴۸)آپ شاہی خاندان میں پیدا ہوئے ۔گندمی رنگ ،خوب رو ،حسین جمیل صورت ،رعب دار شخصیت کے مالک تھے ۸۷ ھ میں آپ مدینہ کے والی مقرر ہوئے ۔ابن سعد کی ایک روایات کے مطابق آپ کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ تھی ۔حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کا عکس آپ کی سیرت وصورت میں نظر آتاتھا ۔ حدوداللہ کے نفاذ کے لیے اپنی ساری قوت استعمال کرتے مخاصمت کرنے والوں کے سامنے آہنی دیوار بن کرکھڑے ہوجاتے ۔عزم وہمت اوراستقلال کا ایسا پیکر تھے کے صدیوں بیت گئیں مگر افق کو ثانی عمربن عبدالعزیز نہ مل سکا۔
یونس بن شیب کہتے ہیں خلافت سے پہلے جسم فربہ تھا ،خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد اتنے کمزور ہوگئے کہ جسم کی پسلیاں گننا آسان تھا۔۔ اپنی عیش و عشرت کا سارا سامان ۱۲ ہزار دینار میں فروخت کر کے رقم غریبوں میں تقسیم کر دی۔عمر گزر گئی ذاتی حیثیت میں کوئی عمارت تعمیر نہ کرائی۔ فرماتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سنت ہے۔ خلاف ملی تو اپنے رب سے عہد کیاجب تک مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمے دار ہوں اینٹ پر اینٹ اور شہتیر پر شہتیر نہیں رکھوں گا۔ جس گھر میں آپ رہتے تھے اس میں بالا خانہ تھا جس کے زینے کی ایک اینٹ ہلتی تھی جس سے چڑھتے اترتے گرنے کا خوف رہتااسی خوف کی وجہ سے ان کے ملازم نے گارے سے اینٹ کو جوڑ دیا۔ بالا خانے کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے جب اینٹ کے ہلنے کی آواز نہ آئی تو ملازم کو پکارا ۔۔۔ یہ کیوں کیا ۔۔۔ ملازم نے وجہ بتائی حکم دیا اکھیڑ دو اس اینٹ کو میں نے اپنے رب سے وعدہ کر رکھا ہے جب تک خلیفہ ہوں اینٹ پر اینٹ نہیں رکھوں گا۔محمدبن خالد سے مروی ہے کہ عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ قریش میں سب سے زیادہ معطر رہنے والے اورخوش لباس تھے ،جب خلیفہ مقرر ہوئے تو سادہ لباس اورمعمولی غذا کا انتخاب کیا ۔
سلیمان بن عبدالملک کی رحلت کے بعد آپ خلیفہ مقرر ہوئے ۔ خلیفہ سلیمان کی تجہیزوتکفین کے بعد آپ کے سامنے شاہی سواریاں ،گھوڑے ،خچر سواری کے لیے پیش ہوئے آپ نے انہیں اپنانے سے انکار کیا اوراپنی سوار ی کی مہار تھامی ۔خلافت کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد لوگوں سے پہلی مرتبہ یوں گویا ہوئے امابعد! بے شک تمہارے نبی کے بعد کوئی نبی نہیں اورنہ اس کتاب کے بعد جوان پر نازل ہوئی کوئی کتاب ہے ۔لوگو! یادرکھو جواللہ تعالیٰ نے حلال کردیا قیامت تک حلال ہے ۔اور جواللہ تعالیٰ نے حرام کردیا قیامت تک حرام ہے ۔لوگو! اگاہ رہو میں حکم دینے والا قاضی نہیں ہوں بلکہ اللہ کے حکم کو نافذ کرنے والا اللہ کا بندہ ہوں ،میں نیا کام کرنے والا نہیں ہوں بلکہ پیروی کرنے والا ہوں ،لوگو یاد رکھو ! کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اس کی اطاعت کی جائے ،میں تم میں سے بہتر نہیں ہوں ،میں تمہیں میں سے تمہارے جیسا ایک شخص ہوں ،سوائے اس کے کے اللہ نے مجھے تم سے زیادہ گراں بار بنا دیا ہے ۔۔
جناب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس تمام مال واسباب پر نظر ڈالی جو ان کے قبضہ میں تھا ،اسے اللہ کے راستہ میں مستحقین میں تقسیم کردیا حتی کہ وہ انگوٹھی جوخلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے آپ کو عنائیت کی تھی وہ بھی مستحقین میں تقسیم کردی ،دوسرا شاہی فرمان دیگر ریاستوں میں جاری کیا کہ تمام غصب شدہ جائیدادیں واپس پسماندگان میں لوٹا دی جائیں ۔مساوات اورانصاف کے نظام کو موثر بنانے کے لیے امراء کو لکھ بھیجا کہ وہ اپنے گھروں کے اندر اجلاس کرنے سے گریز کریں ،لوگوں کے درمیان بیٹھ کر خوش اسلوبی سے صلح کروائیں ،کسی فرد کو کسی فرد پر کوئی ترجیح نہیں ہے ۔ہرگز لوگوں سے سے یہ نہ کہو لوگ امیرالمومنین کے اعزہ ہیں آج سب برابر ہیں ۔ہر عام وخاص کے لیے اپنے گھر کے دروازے کھول دیے ۔سماجی ورفاعی امور میں آسانیاں پیدا کیں۔پانی کے تمام کنویں اور بائولیاں تمام لوگوں کے لیے کھول دیں ۔تمام شاہراہوں سے چونگی اورلوگوں سے جزیہ منسوخ کردیا گیا ۔
زکوۃ اورصدقات کے نظام کو کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ کے اصولوں کے تحت سلطنت میں رائج کردیا گیا۔وظائف مقرر کیے گئے ۔غلہ کی تقسیم کار کا نظام وضع کیا اورروزانہ ادائے انسانی حقوق کے نفاذ کے لیے مشاورت ،احکامات صادر فرماتے ۔ قیدیوں کے وظائف جاری کیے جانے لگے ،مقروضوں کا قرضہ ادا کرنے کرنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ۔حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے گھر والوں کے روزینے بند کردیے، جب انھوں نے تقاضا کیاتو فرمایامیرے اپنے پاس کوئی مال نہیں ہے اور بیت المال میں تمہارا حق بھی اسی قدر ہے جتنا کہ اس مسلمان کا جو سلطنت کے آخری کنارے پر آباد ہے، پھر میں تمہیں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ کس طرح دے سکتا ہوں؟ خدا کی قسم اگر ساری دنیا بھی تمہاری ہم خیال ہوجائے تو پھر بھی میں نہیں دوں گا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ نے اپنی سلطنت کے اندر مسلم اور غیرمسلم کے شہری حقوق کو یکساں کردیا، حیرہ کے ایک مسلمان نے ایک غیرمسلم کو کسی وجہ سے قتل کردیا، آپ رحمہ اللہ نے قاتل کو پکڑکر مقتول کے وارثوں کے حوالے کردیا اور انھوں نے اسے قتل کردیا، ایک عیسائی نے خلیفہ عبدالملک کے بیٹے ہشام پر دعویٰ کردیا، جب مدعی اور مدعالیہ حاضر ہوئے تو آپ رحمہ اللہ نے دونوں کو برابر کھڑا کردیا، ہشام کا چہرہ اس بے عزتی پر فرطِ غضب سے سرخ ہوگیا، آپ رحمہ اللہ نے یہ دیکھاتو فرمایااس کے برابر کھڑے رہو، شریعتِ حقہ کی شانِ عدالت یہی ہے کہ ایک بادشاہ کابیٹا عدالت میں ایک نصرانی کے برابر کھڑا ہو۔
نصیرالدین ولیدپوری رقمطراز ہیں کہ سارا دن سلطنت کی ذمہ داریاں نبھاتے اور رات کے وقت عشاء پڑھ کر تن تنہا مسجد میں بیٹھ جاتے اور ساری ساری رات جاگتے، سوتے، گریہ وزاری میں بسر کردیتے، بیوی سے ان کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی، ایک دن انھوں نے تنگ آکر پوچھا، تو ارشاد فرمایامیں نے ذمہ داری کے سوال پر بڑی اچھی طرح غور وخوض کیا ہے اور اس کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ میں اس امت کے چھوٹے بڑے اور سیاہ وسفید کاموں کا ذمہ دار ہوں، مجھے یہ یقین ہوچکاہے کہ میری سلطنت کے اندر جس قدر بھی غریب، مسکین، یتیم، مسافر اور مظلوم موجود ہیں ان سب کی ذمہ داری مجھ پر ہے، خدا تعالیٰ ان سب کے متعلق مجھ سے پوچھے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے متعلق مجھ پر دعویٰ کریں گے اگر میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جواب نہ دے سکا تو میرا انجام کیا ہوگا؟ جب میں ان سب باتوں کو سوچتا ہوں تو میری طاقت گم ہوجاتی ہے، دل بیٹھ جاتا ہے، آنکھوں میں آنسو بے دریغ بہنے لگتے ہیں۔
۱۰۱ھ میں اموی خاندان کے بعض لوگوں نے آپ رحمہ اللہ کے غلام کو ایک ہزار اشرفی دے کر آپ کو زہر دلوادیا، آپ کو اس کا علم ہوا تو غلام کو پاس بلایا، اس سے رشوت کی اشرفیاں لے کر بیت المال میں بھیجوادیا اور فرمایاجاؤ میں تمہیں اللہ کے لیے معاف اور آزاد کرتاہوں۔ پھر اپنے بیٹوں کو پاس بلایا اور فرمایااے میرے بچو!دو باتوں میں سے ایک بات تمہارے باپ کے اختیار میں تھی، ایک یہ کہ تم دولت مند ہوجاؤ اور تمہارا باپ دوزخ میں جائے، دوسری یہ کہ تمہارا باپ جنت میں داخل ہو، میں نے آخری بات پسند کرلی، اب میں تمہیں صرف خدا ہی کے حوالے کرتا ہوں۔
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
عصرحاضر میں مدینہ کی ریاست کا نعرہ بلندکرنے والوں کو چاہیے کہ سیدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے خلافت کے ایام کا مطالعہ کریں ،موجودہ حکومت اوراپوزیشن میں ایسےافراد موجود ہیں جنہوں نے پاکستانی عوام کا خون نچوڑ کر اپنے خزانے بھرے ہیں ،چینی پر کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر آچکی افسوس چینی کے دام ابھی تک آسمان سے باتیں کررہے ہیں ،وزیراعظم عمرا ن خان نے تاریخ ساز کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ چینی چوروں کو بے نقاب کردیا ہے ۔مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ بے نقاب ہونے والے دھندہ جاری رکھیں ہوئے ہیں ۔بجلی بنانے والی کمپنیوں کا بے تحاشا منافع بے نقاب مگر عامتہ الناس کے لیے مہنگی بجلی کا بوجھ ویسے کا ویسا ؟آٹے چور بے نقاب مگر عوام کے لیے آٹا مزید مہنگا ؟۔۔مقتدر احباب کو معلوم ہونا چاہیے کہ مدینہ کی ریاست میں انصاف، مراعات، سہولیات میں سب برابر تھے ۔خلیفہ اول کی تنخواہ ایک مزدور کے برابر تھی ۔۔۔ جاری ہے۔