گداگری کا ناسور

بھیک کو اسلام میں بہت برا تصور کیا گیا ہے اسی لیے اہل تقویٰ کے نزدیک کسبِ حلال سے دنیا میں عزت اور آخرت میں نجات ملتی ہے۔اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہر اس شخص کواپنا دوست رکھتی ہے جو اپنے ہاتھوں سے حلال رزق کماتا ہے۔ لیکن آج بھیک مانگنے کی لعنت ہمارے معاشرے میں ایک ناسور بن چکی ہے جس کے علاج کے لیے ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میڈیا زیادہ اہم رول اداکرسکتا ہے۔گداگری پورے ملک میں باقائدہ ایک پروفیشن بن چکا ہے۔ اگر صرف اپنے شہر شیخوپورہ کا ذکر کروں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے پورے پاکستان کے گداگریہاں نازل ہوچکے ہیں۔

یقینا آپ بھی محسوس کرتے ہونگے کہ ماہ رمضان کے آتے ہی ہر گلی کوچے اور بازاروں میں ایسی ایسی درد بھری آوازیں سننے کو ملتی ہیںجودرد کے راہی کے ایوارڈ یافتہ کنگ آف فوک گلوکار اکرم راہی اور درد کے سفیر کے ایوارڈ یافتہ گلوکار عطااللہ خان عیسٰی خیلوی کے گیتوں میںبھی نہیں ملتیں۔آجکل ان بھکاریوں کی آہ و زاریوں کوسن کرمجھے تویوں لگتا ہے جیسے ہم لوگ تو بہت ہی ظالم ہیں۔

یہ بھکاری لوگ  اوران کے بچے کتنے دنوں کے  بھوکے اور پیاسے ہیں ہمارے روزے اور ہماری نمازیں خدا نخوستہ سب بیکار جائیں گی10-20روپے کے سوال پرپہ بھکاری لوگ آبائواجداد کے اوصاف پیش کرتے ہیں کہ جیسے ptv پرطارق عزیزصاحب کے پرگرام میں شائشتہ زبان بولنے کی ریہرسل کررہے ہوںاور ایسی ایسی دعائیں دہراتے ہیں کہ جس سے لگتا ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین صاحب جیو ٹی وی پر انہیں گداگروں سے سیکھ کرآتے ہوںاور اگر گداگروں کی صداکا مثبت جواب نہ دیں توپھر مذکورہ اوصاف پہلو بدل لیتے ہیں۔اور وہی لب لہجہ جوچند لمحے پہلے پھولوںکی سی محسور کن دعائیں دے رہا ہوتا ہے وہی اخلاقیات کی تمام حددووقیود کوعبور کرچکا ہوتا ہےاور بد دعائوں کا دلیرانہ سلسلہ شروع کردیتا ہے۔

گداگر عورتیں گھروں سے بھیک مانگتی ہیں۔اکثرگھریلو خواتین ان پرترس کھاکر اپنے گھر میں بٹھا لیتی ہیں کھانے پینے کے علاوہ ان کو نقد امداد بھی دیتی ہیں۔یوں بھکاری عورتیں اپنے آدمیوں کو اطلاع دے دیتی ہیں کہ فلاں فلاں گھر میں اتنا مال ہے اور گھر میں صرف سیدھی عورتیں ہیں ایسی نیکی کرنے سے نہ صرف گھر کا صفایا ہوجاتا ہے بلکہ بعض اوقات شورمچانے پر گداگر جانی نقصان بھی کرجاتے ہیں۔ لہٰذا مائوں بہنوں اور بیٹیوں کوچاہئے کہ گداگروں کو گھرکے اندر نہ آنے دیا جائے اور گھرکا دروازہ بند رکھا جائے تاکہ کسی بھی قسم کے نقصان کا خدشہ نہ ہو۔

قارئین شیخوپورہ کا بتی چوک ایسا چوک ہے جس کے مشرق کی جانب لاہور مغرب کی جانب سرگودھا،شمال کی جانب گوجرانوالہ اور جنوب کی جانب فیصل آباداور ننکانہ شہر ہیں چند دن پہلے میں لاہور جانے کے لیے بتی چوک میں کھڑا تھا۔ مسافر لوگوں کے ساتھ ساتھ وہاں گداگروں کا بھی کافی رش تھا۔بتی چوک کے چاروں کونوں میں آج کل  پروفیشنل بھکاریوں نے عید کمانے کے لیے اپنے اپنے انداز میں مورچے قائم کئے ہوئے ہیں کچھ بھکاریوں نے اپنے ساتھ سبز لباس میں چھوٹے چھوٹے سروں والے دولے شاہ کے چوہے ظاہر کر کے مانگنے کا طریقہ اختیار کیا ہوا ہے۔

کچھ لوگوں کے جسم کے عضاء کٹے ہوئے دیکھ کر محسوس ہورہاتھا جیسے یہ پیدائشی معذورنہیں بلکہ گھروں سے بھاگے ہوئے یااغوا کئے ہوئے بچوں کو معذور کرکے ان سے بھیک منگوائی جارہی ہے۔یہ منظر دیکھ میں کسی سوچ میں گم تھا کہ اچانک کسی نے میرے کندھے پر اپنا ہاتھ  رکھا میں نے چونک کر پیچھے دیکھا تو دو عورتیں کھڑی تھیں ان کودیکھتے ہی مجھے ایسا لگاکہ ان کو پہلے بھی کبھی دیکھا ہے۔وہ دونوں عورتیں کہنے لگیں کہ ہم نے سرگودھا جانا ہے اور گاڑی کا کرایہ نہیں ہے میں نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ آئو میں بھی سرگودھا جارہا ہوں میرے ساتھ آجائوتمھارا کرایہ میں ادا کردوں گا۔

جب وہ نہ مانیں تو میں نے ان سے کہا کہ کتنی بری بات تم جھوٹ بول کرلوگوں سے بھیک مانگ رہی ہو،چند ماہ پہلے تم مجھ سے مینار پاکستان لاہورسے اوکاڑہ جانے کا کرایہ مانگ رہی تھیں اور آج شیخوپورہ سے سرگودھا جانے کا کرایہ مانگ رہی ہو،تووہ دونوں بھکاری عورتیں غصہ میں آکریک زبان ہوئیں اور کہنے لگیں کچھ دیناہے تو دو ورنہ اپنا مشورہ اپنے پاس رکھو،پھر وہ نئے شکار کی طرف بڑھنے لگیں۔سامنے سے ایک اسٹوڈنٹ لڑکاآرہا تھااسے بھی روک کراپنا طریقہ واردات دوہرایا اور دعائیں دینے لگیں کہ اللہ تمہیں ہر امتحان میں کامیاب کرے اور تم جوانی کی ہزاروں بہاریں دیکھو اس لڑکے نے ان کی سو ،پچاس کی ڈیمانڈ سے پہلے ہی کہہ دیا میں تو اسٹوڈنٹ ہوں میرے  پاس پیسے کہاں۔ جیسے ہی لڑکا ان عورتوں کا حصار توڑ کر آگے بڑھا تو  پیچھے سے ان بھکاری عورتوں نے بیچارےا سٹوڈنٹ پر اپنی بد دعائوں سے حملہ کردیا۔جاتوانہیں سڑکوں پرپھرتا رہے اور کنکٹروں اور ڈرائیوں سے گالیاں کھاتا رہے۔فیس کے پیسوں سے سیگریٹ پیتا پیتا نشہ پر لگ جاے اور تو ہر امتحان میں فیل ہووغیرہ وغیرہ۔

مگر لڑکا ان پر غصہ ہونے کی بجائے کہنے لگا تمہاری بددعائیں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں کیونکہ میری ماں میرے لئے روزانہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتی ہے۔اوروہ مجھے اپنے حفظ وامان میں رکھتا ہے اور ہرامتحان میں باعزت سرخروکرتا ہے،ان عورتوں سے جان چھوٹی تو ایک مولوی صاحب آگئے جومسجد کی تعمیر کے لیے چندہ مانگتے ہوئے اپناحصہ سمیٹ رہے تھے کہ دوتین بھکاری اور آگئے جواپنی گفتتگو اور اپنی مخصوص حرکتوں سے بھانڈ قسم کے لگتے تھے ،اب میرے پاس کھلے پیسے نہ تھے میں نے کہا کہ بابا معاف کرو انہوں نے کہاکہ مولا خوش رکھے عید آگی ہے اب معافی شافی کوئی نہیں ہے۔ مجھے عجیب سا لگا میں نے ان سے کہا کہ جائو بتی چوک کے ساتھ ہی city mna میاں جاوید لطیف صاحب کا گھرہے ،وہ خداترس بھی ہیں وہاں سے تمہیں اچھی خاصی خیرات مل سکتی ہے۔

یہ سن کروہ آگے سے جگیتں مارنے لگے کہ مولاخوش رکھے میاں صاحب نے بتی چوک بناکر اس کے اوپرچاروں طرف سلامی دینے کے لیے 4چارمہنگے ترین شیر رکھ دئیے ہیں اب ان کے پاس ہمارے لیے پیسے کہاں بچے ہونگے۔ایک گداگربولایہ شیر میاں صاحب نے پتہ نہیں سری لنکا سے یا ویسٹ انڈیز سے منگوائے ہیں جنکی کالی رنگت دیکھ کر ذہنی کوفت ہوتی ہے۔دوسرا بھکاری طنزا مسکراتے ہوئے بولاکہ اگر میاں جاوید لطیف mnaصاحب ناراض نہ ہوں تو ہمیں آرڈر کریں کہ ہم ان کالے شیروں کو ان کی اصلی رنگ کروا دیتے ہیں تاکہ بچے بھی ان کودیکھ کر کالے کتوں کی بجائے شیرشیرکہہ کر خوش ہوجائیں۔

ان دلچسپ بھکاریوںکی طنز و مزاح سے بھرپور باتیں سن کراور بھی لوگ محظوظ ہورہے تھی کہ اس دوران فیصل آبادسےایک بس بتی چوک پہنچ گئی بس کے انتظار میں کھڑے لوگ ایک دوسرے کودھکے دیتے ہوئے بس پر سوار ہونے لگے رش کافی تھا کنڈیکٹر نے وہاں ڈیوٹی پرتعینات پولیس والوں کو عیدی دی اور بس کی چھت پر سواریاں بٹھانے کی اجازت لے لی۔میں بس کے اندر جیسے تیسے کھڑا ہونے میں کامیاب ہوگیا۔

راستے میں جوئیاں نوالہ ،خانپور،قلعہ ستارشاہ،کوٹ عبدالمالک ،بیگم کوٹ اوربیگم کوٹ سے یاد آیا کہ کالمسٹ کونسل آف پاکستان کے مرکزی نائب صدر جناب امتیاز علی شاکر صاحب بیگم کوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ بات کرتے ہیں سفرکی بیگم کوٹ سے اُترتی چڑھتی سواریاں دھکے لگنے اورایک دوسرے کے پسینے کی بدبوسے بیزار تھیں کہ اتنے میں شاہدرہ پہنچ گئی۔وہاںسے اچانک پوری بس میں خوشی سی محسوس ہونے لگی۔ہویوں کہ اگلے دروازے سے ایک نوجوان لڑکی سوار ہوئی میں ابھی سوچ میںتھاکہ اس لڑکی کو پتہ بھی ہے کہ بس میں پہلے سے آدمی کھڑے ہیں اور یہ کدھر بیٹھے گی فورااس لڑکی نے اپنا ہینڈ بیگ کھولا اور سیٹوں پر بیٹھے لوگوں کوکارڈ دینے لگی۔ان کارڈوں پرلکھاہوتھاکہ یہ لڑکی غریب ہے اور بے سہارا ہے اس کی مدد کیجئے۔

لباس اور مہنگے پرفیوم سے لگ رہا تھایہ مانگنے والی لڑکی نہیںہے۔بہرحال وہ دھکے کھاتی اوردھکے دیتی ہوئی بس کی آخری سیٹ تک اپنے کارڈ تقسیم کرچکی تھی۔پھرواپس آتے ہوئے کارڈ بمعہ امداد سمیٹنے لگی۔کچھ منچلے لڑکوں نے مذکورہ کارڈوں پر اپنے موبائل نمبر لکھ کرگود میں رکھ کر دھیان دوسری طرف کرلیا تاکہ وہ لڑکی کارڈ اُن کی گود سے خود اْٹھائے ،کچھ لوگوں نے پیسے دئیے کچھ نے طرح طرح کی باتیں سنائیں۔وہ لڑکی اپنے کام سے فارغ ہوئی توتب تک یادگار چوک آچکا تھا۔ وہ لڑکی بس سے ا ترنے لگی تو بس ڈرائیور اور کنڈیکٹر نے کسی شہزادی کا پوچھاکہ وہ آجکل کدھرہے۔مل ہی نہیں رہی؟وہ لڑکی بولی تمہاری شہزادی اپنے گروپ کے ساتھ ان دنوں ماڈل ٹائون ،فیصل ٹائوں،جوہڑٹائون،گلبرک اور ڈیفنس کے علاقوں سے عیدی اکھٹی کررہی ہے۔یہ کہہ کراس نے کنڈیکٹر سے اپنا پلوچھڑوایااور بس سے نیچے اتر گئی۔

بس سے زیادہ تر سواریاں اترچکی تھیںاور بس اپنے آخری سٹاپ یعنی لاری اڈا کی طرف رواں دواں تھی۔مجھ سے رہا نہ گیا میں نے کنڈیکٹر سے کہا آپ لوگ ایسی حرکتیں کیوں کرتے ہیں۔ وہ بولاایسی بے شمار لڑکیاں رات کو ہمارے پاس لاری اڈوں پرہوتی ہیں۔مسلمان بہن بھائیو:اگر ہم سب ان پیشہ ور بھکاریوںکوپیسے نہ دیں بلکہ جولوگ اصل حقدار ہیں اور سفید پوش ہیں اور جن کے پاس مہنگے پرفیوم توکیابسوں میں کارڈوں والیوں جیسے کپڑے بھی نہیں انکی امداد کسی نہ کسی طرح کردی جائے تو اس سے اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوگااور سفید پوش لوگوں کا بھرم بھی قائم رہ سکے گااور اسطرح بھیک مانگنے کی لعنت کے ناسور کا علاج بھی ممکن ہوسکے گا۔

جواب چھوڑ دیں