ایسے میں تیری یاد آتی ہے” ایک شاعرہ نے اپنے والد کی وفات پر ایک خوبصورت آزاد نظم کہی تھی۔..بابا مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔جی چاہتا ہے تمہارے سپنے دیکھوں،…لیکن کوئی خواب آتا نہیں…میں تمہیں صدائیں دیتی ہوں،…لیکن کوئی جواب آتا نہیں۔
لفظ باپ ایک بہت بڑے تحفظ کا نام ہے۔یہ محض ایک لفظ نہیں ہے یہ ایک سربراہی ہے۔ایک سائے کی مانند باپ دھوپ سے بچاتا ہے ایک سائباں بن کر زمانے کے گرم سرد سے دور رکھتا ہے اور تناور درخت کی مانند میٹھے پھل اور زندگی کی تمام نعمتیں عطا کرنے کی تگ ودو کرتا ہے۔باپ تو ایک اعتماد ہے معاشرتی مقام ہے بچے کو جب باپ کا نام ملتا ہے تو سمجھیں کے معاشرے میں ایک مقام اسے الاٹ ہو گیا ہے۔اسی مقام سے جانا پہچانا جاتا ہے فلاں کا پوتا فلاں کا بیٹا… باپ دادا والا بن جاتا ہے ،بچہ لاوارث نہیں ہوتا۔
ہم میں سے ہر ایک کو یہ شناخت باپ کی صورت میں رب کائنات نے دے رکھی ہے۔ہم اسی اعتماد اسی پہچان کے مالک ہیں جو باپ کی طرف سے ہمیں ملی ہے۔قانون قدرت یہی ہے کہ ہر آنے والے کو جانا ہوتا ہے۔ہم میں سے جن کے ماں باپ سلامت ہیں اللہ ان کو صحت اور درازی عمر عطا فرمائے۔اور جن کے والدین زندہ نہیں ہیں ان کو غریق رحمت کرے۔آج ہم جس مقام پر ہیں ذرا سوچیں کہ ہمارے والدین نے ایک عمر گزار کر آپ کو معاشرے کا ایک قابل قدرشہری بنایا۔
تعلیم تربیت نان نفقہ شادی بیاہ سب ضرورتیں پوری کیں جو رہ گئیں وہ آپ میں انہوں نے اتنی قابلیت پیدا کردی کہ وہ ضرورتیں خود پوری کرسکتے ہیں اور اپنے مسائل خود حل کر سکتے ہیں۔وہ آپ کو اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے کا گر سکھا گئے ہیں۔بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ کر اتنے stable ہونے کے باوجود جب نظر عہد رفتہ کی طرف جاتی ہے تو جی یہی چاہتا ہے کہ لوٹ آئے وہ بچپن جو باپ کی مضبوط بانہوں کے حصار میں گزرا جب ہمیں کسی غم کسی ذمہ داری کی پروا نہ تھی۔۔
اب ذرا اندازہ کیجئے اس معصوم بچے کے احساسات اور مسائل کا جس کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا ہو وہ یتیم ہوگیا ہو جس نے باپ کی شناخت تو پالی مگر باپ اس کا سائبان نہ بن سکا اور بچہ معاشرے کے رحم وکرم پر آگیا۔وہ بچہ نہ صرف سائبان سے محروم ہوتا ہےبلکہ ایک ذمہ دار خود مختار اور خود اعتماد شہری بننے کی راہ سے بھی محروم ہو جاتا ہے ہے ۔باپ اس کے لئے ایک خواب و خیال بن کر رہ جاتا ہے اور معاشرے میں اسے ایک ایک قدم اٹھانے کے لیے کئی کئی بار ہاتھ پھیلانے پڑھتے ہیں بھوک پیاس کا مقابلہ تعلیم کا معاملہ ماں کی بے بسی کئی کئی محاذ پر لڑنا پڑتا ہے۔ ایسے موقع پر سلیم ناز بریلوی کی وہ مشہور نعت یاد آتی ہے۔جس میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے مختلف معاشرتی اور اخلاقی رویوں کا رونا روتے ہیں۔ ؎
بن باپ کے عاجز بچے جب افلاس کے گھر میں پلتے ہیں
اور ان کے افسردہ چہرے جب پیٹ کی آگ میں جلتے ہیں
اور کچھ جھوٹی امیدوں سے ان کو جب بیوہ ماں بہلاتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل ایسے میں تیری یاد آتی ہے
اے میرے نبی صدق و صفا دل پر جب شب غم چھا تی ہے
تیری یاد آتی ہے …..
ہمارے مذہب نے ہمیں یتیم کی کفالت کا درس دیا ہے اور اس کے بدلے میں ثواب کی خوشخبری اور زیادتی کی صورت میں عذاب اب اور جواب طلبی کی وعید بھی ہے …لیکن عملی طور پر معاشرتی رویوں کو درست کرنے اور اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے۔حکومتی اور معاشرتی سطح پر ایک مضبوط نظام کی ضرورت ہے جس کے تحت جس یتیم کی کفالت اور تربیت ہورہی ہوگی وہ معاشرے کا ذمہ دار شہری بن کر نکلے۔ایسے میں تو بس حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک مثال ہی کافی ہے۔
گشت کے دوران جب وہ ایک ماں کو اپنے بچوں کو بہلاتے ہوئے سنتے ہیں کہ کس طرح سے اس نے ہنڈیا کے اندر پتھر ابالنے کےلیے رکھے ہوتے ہیں یہ سن کر خلیفہ وقت پر احساس جوابدہی طاری ہوجاتا ہے ۔الٹے قدموں واپس جاتے ہیں اور بیوہ کے نان نفقے کا بندوبست کرتے ہیں…ظاہر ہے کہ جو حکمران دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر جانے پر خدا کے آگے جواب دہی کا احساس رکھتا ہو وہ ایک انسان کی بھوک کیسے برداشت کر سکتا ہے۔وہ یتیم بچوں کو بےآسرا کیسے کر سکتا ہے…تو گویا کہ یتیم کی کفالت کرنا چاہے وہ حکومتی سطح پر ہو چاہے معاشرتی سطح پر ہو اتنا آسان نہیں ہے اس کے لیے خوف خدا اور اور جواب دہی کا احساس چاہیے ۔
جب کبھی لفظ یتیم میری سماعت سے ٹکراتا ہے مجھے ہمیشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد آتی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتنا بڑا حوصلہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت بڑا اعزاز ہیں دنیا کے ہر یتیم کا فخر ہیں۔جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے وہ کبھی کسی یتیم پر انگلی اٹھانے اس کے ساتھ ناانصافی کر نے اسے کمتر سمجھنے کی غلطی نہیں کر سکتا۔جو کوئی اس جہالت میں مبتلا ہے اسے بتا دینا چاہیے کہ والئی دو جہاں رحمت العالمین محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم بھی یتیم تھے۔
انہوں نے باپ کو نہیں دیکھا ؛دادا کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا پھر دادا کی جگہ چچا کی شفقت میں آگئے۔ماں چلی گئیں تو اور بھی تنہاہ ہو گئے۔خدا کی رحمت کے ساتھ ساتھ خاندان قریش کا نظام تربیت بھی دیکھیں کہ جب یہ بچہ جوان ہوتا ہے تو کہنے والے کیا کہتے ہیں ۔۔صادق اور امین ہے۔صالح فطرت ہے جس نے شراب کو کبھی چھوا تک نہیں جوا اسے سخت نا پسند ہے۔معاشرے کا ایسا فرد جس پر ہر کسی کو ناز ہے ہر کسی کو اعتبار ہے۔جو کعبے میں حجراسود لگانے والے عظیم الشان اور مقدس کام کے لیے اس یتیم کو بااتفاق رائے چن لیتے ہیں۔۔اور یہ وہی عبدالمطلب کا یتیم پوتا ہے کہ جس نے پھر اصحاب صفہ “جیسی درس گاہیں بنائیں جہاں سے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ جیسے صحابی نکل کر معاشرے کو درس حدیث دیا کرتے تھے۔
اگر ہم یتیم کی کفالت کرنے کے لیے نکلے ہیں تو سیکھئے کہ کیسے اس کو ذمہ دار شہری بنانا ہے۔ایسی تربیت کیجئے یے کہ وہ اپنے اندر احساس کمتری کا کوئی جواز نہ پیدا ہونے دے۔ہم میں سے ہر کوئی یہ سوچے کہ اس نے کیسے مدد کرنی ہے مدد تواستطاعت کے مطابق ہوگی ۔چاہے تو ایک مخصوص رقم اپنی آمدنی میں سے نکال کر کسی یتیم کی کفالت کیجئے۔ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ آج سے اپنے بچوں میں ایک یتیم بچے کا اضافہ کر لیجیے اگر آپ کے تین بچے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ آئندہ سے آپ کے چار بچے ہیں۔چوتھا وہ بچہ ہے جس کی کفالت آپ کرنا چاہتے ہیں۔جو کچھ آپ اپنے تین بچوں کے لیے خریدتے ہیں وہی اس چھوتے بچے کے لیے بھی خریدیں گے یا پھر اس چیز کی رقم الگ کر دیں گے اورsaving box میں ڈالتے جائیں گے ۔
آپ کے بچے روزانہ پینسل کاپی اور کھانے پینے کی چیزوں کے لئے پیسے لیتے ہیں آپ اگر ایک بچے کو کھانے کے لئے 20 روپے دیتے ہیں تو بیس روپے ہی آپ سیونگ باکس میں اپنے یتیم بچے کے لیے ڈال دیں گے۔بچوں کے لئے شاپنگ کرنے جاتے ہیں ایک سوٹ جتنے روپے کا لیا اتنے روپے ہی آپ اس بچے کے لیے سیونگ باکس میں ڈال دیں گی۔اور مہینے کے آخر لئے وہ رقم اکٹھی کرکے آپ اس بچے کے لیے بھیج دیں گی۔۔۔یہ ایک تجویز ہے آپ اپنے طریقے اور اپنی سوچ کے مطابق یتیم کی کفالت کرنے کے لیے کسی طرح کے بھی پلاننگ کر سکتی ہیں۔
لیکن آپ یہ عزم کرلیں کہ آپ نے کم سے کم ایک یتیم بچے کی کفالت ضرور کرنی ہے۔ اور یہ ہمارا ایمان ہونا چاہیے کہ کسی یتیم کی کفالت کرنے پر ہم کبھی بھی گھاٹے میں نہیں رہیں گے۔۔۔اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی مثال ایک دانے سے اگنے والی گندم کی بالی ہے جس میں پھر سینکڑوں دانے ہوتے ہیں۔۔۔اور یہ تو ہمارے حسابات ہیں۔۔۔۔ اللہ تو بے حساب دیتا ہے۔