چین میں انسداد وبا کی بہتر صورتحال کے بعد اب حالات معمول پر واپس آ رہے ہیں۔سیاسی ، اقتصادی اورسماجی زندگی سے وابستہ امور بتدریج بحال ہو رہے ہیں اور اس کی ایک واضح مثال چین کی سب سے بڑی سیاسی سرگرمی ” دو اجلاسوں”کا جلد انعقاد ہے۔ دو اجلاسوں سے مراد چین کی قومی عوامی کانگریس اور چین کی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کے سالانہ اجلاس ہیں جو وبائی صورتحال کے باعث دو ماہ کی تاخیر سے اکیس اور بائیس مئی سے منعقد ہو رہے ہیں۔
عوامی جمہوریہ چین کی سیاسی تاریخ میں ان ” دو اجلاسوں” کے انعقاد کو ہمیشہ مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے۔ ان اجلاسوں میں گزشتہ ایک برس کے دوران حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ چین کی کمیو نسٹ پارٹی کی قیادت میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں کے جائزے سمیت مستقبل کے اہم اہداف کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ عالمی و علاقائی صورتحال کے تناظر میں ملکی ترقی کے حوالے سےنمایاں ترجیحات کا تعین کیا جاتا ہے۔
دونوں اجلاسوں کے دوران چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم نظام کے تحت معاشی ، سیاسی ، ثقافتی ، سماجی اور ماحولیاتی ترقی کے عمل کو جاری رکھنے کا عزم بھی دوہرایا جاتا ہے چین کی قومی عوامی کانگریس اور عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کےسالانہ اجلاسوں کےدوران فیصلے توچین سےمتعلق کیے جاتے ہیں، قانون سازی چین کے لیے کی جاتی ہے، پالیسیاں چینی عوام کی فلاح کے لیے ترتیب دی جاتی ہیں اور قیادت کا انتخاب بھی چین کا داخلی معاملہ ہے لیکن اسکے باوجود دنیا چین کے سالانہ اجلاسوں میں گہری دلچسپی لیتی ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔
اِس وقت اگر دنیا کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو عالمگیر وبا کووڈ۔ 19 کے باعث دنیا کے سبھی ممالک تشویش میں مبتلا ہیں۔چین میں انسداد وبا کے حوالے سے نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔لہذا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ دونوں اجلاسوں کے دوران صحت عامہ کے امور کو اولین ترجیح حاصل رہے گی۔ ملک میں انسداد وبا کے نظام کی بہتری، طبی نظام کی مضبوطی سمیت لوگوں کی زندگیوں کے تحفظ کے موضوعات زیر بحث آئیں گے۔ چین کی جانب سے پاکستان سمیت دیگر ممالک کو انسداد وبا میں معاونت کی فراہمی بھی جاری ہے لہذا وبا کی روک تھام و کنٹرول کے لیے عالمی تعاون کو آگے بڑھانے میں چین کے کردار کی سمت کا تعین بھی اجلاسوں کے دوران کیا جائے گا۔
چین اس وقت ایک اعتدال پسند خوشحال معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہے جبکہ رواں برس چین سے غربت کے مکمل خاتمے کا سال بھی ہے لہذا ان اجلاسوں کی اہمیت چین کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کے لیے بھی بڑھ جاتی ہے۔غربت کے خاتمے کے حوالے سے گزشتہ سات برسوں کے دوران کروڑوں لوگوں کو غربت کی لکیر سے باہر نکالا گیا ہے۔اگرچہ وبا کے باعث چین میں غربت کے خاتمے کی کوششوں کو چیلنجز درپیش ہیں مگر چینی حکام واضح کر چکے ہیں رواں برس غربت کے خاتمے کا فیصلہ کن سال ہے۔
انسداد وبا کی بہتر صورتحال کے بعد چینی معیشت کی بحالی کے اقدامات دنیا کی توجہ کا نکتہ ہوں گے بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب وبائی صورتحال کے باعث دنیاکے تمام ممالک بشمول ترقی یافتہ و ترقی پزیر ، کی معیشتیں شدید دباو کا شکار ہیں۔دنیا بھر میں عوام کو صحت ،تعلیم ، بےروزگاری اور غذائی تحفظ کے اعتبار سے شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ایسے میں چین معیشت اور روزگار کے فروغ کے لیے کیا پالیسی ترتیب دیتا ہے ،نہایت اہم ہے۔
چین ایک ترقی پزیر ملک کی حیثیت سے دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی کا حامل ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کو دنیا کی ایک بڑی منڈی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ کئی تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ” چین کو اگر چھینک بھی آتی ہے تو دنیا کو بخارچڑھ جاتاہے”۔ ایسا اسلیے کہا جاتا ہے کہ چین اپنی مضبوط معیشت، درآمدات برآمدات کے حجم، ٹیکنالوجی کے فروغ، عالمی امور میں اپنے بڑھتے ہوئے کردار اور اپنے عالمگیر اشتراکی ترقی کے نظریے کی بدولت دنیا میں نمایاں ترین مقام پرفائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ اجلاسوں میں چین کی سماجی معاشی ترقی کے حوالے سے جن بھی ترقیاتی اہداف کا تعین کیا جاتا ہے تو دنیا اسے اہمیت دیتی ہے ۔
چین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اِس نےمعجزاتی ترقی کی ہے اور گزشتہ تیس سے چالیس برسوں کے دوران اصلاحات کا ایک ایسا نظام وضع کیا کہ ترقی کاعمل جواس سےقبل شائد صرف مغرب تک ہی محدود ہوکررہ گیا تھا اب ایشیائی ممالک کی دسترس میں بھی ہے۔ اگرترقی پزیر یا کم ترقی یافتہ ممالک کی بات کریں تو ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکی خطے کے ممالک اس میں سرفہرست نظرآتے ہیں۔
اِن ممالک کے لیے جو اہم چیلنجز ہیں اُن میں غربت، بےروزگاری، بدعنوانی، سیاسی عدم استحکام اور موسمیاتی تبدیلی کےمسائل سرفہرست ہیں۔چین ہمیں اس حوالے سے کافی خوش قسمت نظر آتا ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی زبردست قیادت، چینی حکومت کی بہترین اصلاحات اورچینی عوام کےاپنےملک سے مخلصانہ لگاو کی بدولت کافی حد تک مذکورہ مسائل پر قابو پا لیا گیا ہے۔ ترقی پزیر ممالک یقینی طور پر سمجھتے ہیں کہ اگر چین پالیسیوں کے تسلسل اور بہتر طرز حکمرانی سے مسائل پرقابو پاسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ چین کی ترقی کو ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب چین یہ بھی چاہتا ہے کہ ترقیاتی وسائل صرف چند ممالک تک ہی محدود ہو کر نہ رہ جائیں بلکہ چین دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک کو ترقی کے سفر میں ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے۔ چین عالمگیریت کی بات کرتا ہے ، چین تجارتی تحفظ پسندی کی مخالفت کرتا ہے اورعالمی نظام میں سبھی ممالک کے یکساں حقوق کا داعی ہے۔ دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو چین کے اشتراکی ترقیاتی نظریے کا بہترین عکاس ہے اور ان دونوں اجلاسوں کے دوران بھی چین کی جانب سے اس عزم کو دوہرایا جاتا ہے کہ مشترکہ ترقی کو فروغ دیا جائے گا۔ ترقی پزیر ممالک کے درمیان تعاون کی بات کی جاتی ہے، پسماندہ اور ترقی پزیر ممالک میں ترقی کو فروغ دینے کا عزم ظاہر کیا جاتا ہے۔
چین کے سالانہ اجلاسوں کے دوران چین کی سفارتی پالیسی کی راہ بھی متعین کی جاتی ہے لہذا عالمی ممالک کی دلچسپی کا اہم نقطہ چین کی یہ پالیسی بھی ہوتی ہے کہ دیکھتےہیں کہ چین عالمی مسائل کے حل کے لیے کیا فارمولہ پیش کرتا ہے۔ چین اقوام متحدہ کےامن دستوں میں ہمیشہ پیش پیش رہاہے۔انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہاہے اور حالیہ وبائی صورتحال میں چین کا معاون کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انسداد وبا کی اس گھمبیر صورتحال اور انسانیت کو درپیش ایک کٹھن آزمائش میں چین کی یہ سب سے بڑی سیاسی سرگرمی دنیا کو کیا پیغام دیتی ہے۔