ایک دو دن سے یہ سوال دن میں ایک دو مرتبہ ضرور سننے میں آتا ہے کہ آج کونسا روزہ ہے ، جواب میں بتایا جاتا ہے بائیسواں تئیسوان چوبیسواں ۔۔تو حیرانگی سے فقرہ سننے کو ملتا ہے ، چوبیسواں؟؟ ہاے روزے کتنی تیزی سے گزر گئے ،پتہ بھی نہیں چلا۔ ایسے ہی ڈرتے تھے کہ لاک ڈاون اور کرونا کے خوف کی ہمراہی میں آنے والا رمضان پتہ نہیں کیسے گزرے گا ،رمضان تو گزر بھی گیا،ہاے میں نے تو سوچا تھا اس مرتبہ دورہ قرآن کی مصروفیت نہیں ہوگی تو کھلا وقت ہوگا دن میں کئ کئ پارے تلاوت کروں گی۔
پچھلے رمضان دورہ قرآن کے لئے آنے جانے کی وجہ سے بہت مصروف گزرتا تھا بس بھاگا دوڑی میں ہی گزر جاتا، تھا اس مرتبہ سوچا تھا کرونا کے متاثرین کےلیے رمضان میں افطار پیک بنوا کے بھیجوں گی پچھلے موسم کے کپڑے نکال کے بھجواوں گی مگر کچھ بھی نہ ہوا ۔ہاے روزے چلے بھی گئے میں تو بس سوچتی رہ گئ عبادت میں لطف آیا نہ طاق راتوں میں کچھ کر سکی ،واقعی سوچنے کی بات ہے رمضان تو آتا ہی جانے کے لئے ہے ۔۔اس لئے کہ باری تعالی نے اسے ۔۔ایاما معدودات ۔۔گنتی کے چند دن کہا ہے تو گنتی کے چند دن جانے کے لئے ہی آتے ہیں ۔۔یہ آتے تو مخصوص مدت کے لیے ہیں مگر ہمیشگی کی راحت کے لیے برکات لیے آتے ہیں۔
میں بس صبح سے دو باتیں سوچ رہی یوں کہ یہ دن بندے کے سجدے یا تلاوت کی میزبانی نہیں مانگتے یہ دن ان سجدوں کی حلاوت سے ملنے والی ایمانی طاقت جو کسی غیر سے دبنے اور جھکنے والی نہ ہو ۔۔ ان سجدوں میں بہنے والے وہ آنسو جو دل کی ندامتوں کی وجہ سے نکلیں مگر اس کے بعد ان کے طاغوتی طاقتوں کے آگے جھکے سر ہمیشہ کے لیے حق تعالیٰ کے آگے جھکنے کا عزم کر لیں ان کی تلاوت اور خوش الحانی کا سوز فرشتوں کو عرشوں سے ضرور اتارے مگر وہ فرشتے سبحان اللہ کہنے کے لیے نہیں امت مسلمہ کی مدد کے لیے آئیں کہ امت مسلمہ نے اس مرتبہ گھروں میں بند رہ کے جو رمضان گزارا ہے۔
روزوں کی شرائط قیام اور احتساب کا حق ادا کردیا ہے وہ اپنے احتساب کے نتیجے میں اپنے واحد مرض ۔۔غیر کی غلامی ۔۔سے نجات کی تشخیص کے بعد بندگی میں دینے کو تیار ہیں ۔۔اب وہ ظلم کی ہر طاقت کے سامنے استحصال کرنے والی قوتوں سے لڑنے کے لیے تیار ہین ۔۔ان کی عقابی روح بیدار ہوچکی ہے ۔۔اقبال کا شاہین ان کا عملی نمونہ بن چکا ہے ۔۔ اب ان کی اذان سے کفر پر لرزہ طاری ہونے کو ہے ۔۔رومی رازی کے فلسفے نے ان کو زندگی کی حقیقت سے آشنا کر دیا ہے ۔ ۔۔خالد بن ولید ۔طارق بن زیاد نے ان کو موت سے محبت کرنے والا بنادیا ہے ۔۔قیام پاکستان کے بعد مدارس مین قال اللہ اور قال الرسول کی ستر بہتر سال کے سبق کی دہرائ نے ان کو تمام دنیا پر غالب ہونے کا یقین کامل عطا کردیا ہے ۔۔۔۔۔۔دیکھنا اب ان کی ہیبت سے کفر کیسے خوفزدہ ہوگا۔۔
مقبوضہ کشمیر کی خونچکان داستان کا اختتام کتنا قریب ہوگیا ۔۔کشمیر کی آزادی اور ہندووں کی بربادی چند سانسوں کے فاصلے پر اور مسجد اقصی تو قبلہ اول ہے ۔۔ہر مسلمان کی محبتوں کا مرکز ہے وہ تو بس صیہونیوں کو عبرتناک انجام تک پہنچانے سے پہلے ہی امت مسلمہ کی نمازوں کےنلیے کھول دی جاے گی ۔۔۔برما روہنگیاہ ایغور کے مظالم پر اب کوی سمجھوتہ نہیں ۔۔حدیث مبارکہ میں جو پڑھا تھا کہ ظلم برداشت کرنے والا بھی ظالم کا ساتھی سمجھا جاے گا اور یہ حدیث کہ مسلمان آپس میں جسد واحد کی مانند ہیں ایک حصہ کو تکلیف ہو تو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے ۔۔بار الہی اب تک ہم ظالموں کے ساتھی بنے رہے ہمیں معاف فرما ۔۔۔اب مزید نہین ایغور چیچنیا روہنگیاہ کے مظلوم مسلمانو تیار ہوجاو ہم تم پر ظلم کرنے والوں کے کشتوں کے پشتے لگانے آرہے ہین ۔۔۔ ۔۔۔اور اللہ کا خالی گھر جسے دیکھ کے ایمان کے مائنس درجہ والے مسلمان کا بھی دل پگھلتا تھا ۔۔حرم کو خالی دیکھ کے اندر روح میں بھی سناٹا چھا جاتا تھا ۔۔اور جس گھر کے متعلق قرآن مجید میں رب رحمان کی بشارت دن رات پڑھتے تھے ۔۔ومن دخل کان امنا
اور جو اس میں داخل ہوا امن میں داخل ہوگیا ۔۔اللہ ہم اس آیت کے منکر ہوگئے تھے بنی اسرائیل کی طرح ہم نے بھی اس آیت کو محض پڑھنا ہی ضروری سمجھا ۔۔۔۔ہم آرہے ہین وہاں مقام ابراہیم ہے ناں جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اسباب نہ بھی ہوں تو اللہ بندے سے کام لے لیتا ہے ۔۔افرادی قوت نہ بھی پو تو اللہ کا گھر تعمیری مراحل طے کر لیتا ہے سیڑھی نہ بھی ہو تو ایمانی طاقت کے بل بوتے پر خانہ کعبہ کو وحدت امت بنانے کے لئے ٹیکنالوجی کو مطیع کردیا جاتا ہے ۔۔یہ نہیں دیکھا جاتا یہاں آبادی نہیں ہے ۔۔یہ نہیں دیکھا جاتا یہان زندگی کے اسباب بھی میسر نہیں ہیں بس حکم ربی پر مطیع ہونا پرتا ہے
۔۔۔۔رمضان گزر گیا مگر کچھ بھی نہ ہوا۔۔کوی مرد حر امت مسلمہ کی بیداری کے لیے حجرے سے نہیں نکلا ۔۔کوی للکار سننے کے لیے لان ترستے رہ گئے جو کفار کے ایوانوں میں لرزہ طاری کردے ۔۔۔کچھ بھی نہیں ہوا ۔۔رمضان گزر گیا ۔۔۔ہاں کرونا ڈسکس ہوا ۔۔سازشوں کو بے نقاب کرنے کا سلسلہ پورا رمضان جاری رہا ۔۔کرونا رب کا عذاب ہے یا طاغوتی طاقتوں کا شکنجہ ۔۔اس کے حتمی نتیجے تک پینچنے کےلیے لمبی لمبی پوسٹ وڈیوز شئیرنگ کا مقابلہ ہوتا رہا ۔۔ویکسین بنے گی یا نہیں کی گفتگو ہوتی رہی لاک ڈاون مکمل طور پر کب تک کھل پاے گا یہ اندازے لگاے جاتے رہے ۔۔لاک ڈاون کھلنا چاہئیے یا نہیں کے متعلق واضح طور پر امت مسلمہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئ ۔۔۔۔لاک ڈاؤن میں کھاڈی سناسفیناز کے علاوہ دیگر برانڈ پر سیل ہونی چاہئیے کی خواہش سر اٹھاتی رہی ۔۔ عید کی نماز گھر میں جایز ہے یا نہین بحث مباحثے کے نئے در کھول دے گی۔
ہاے روزے گزر گئے زیادہ کمائ والون نے صدقہ خیرات کیا ہوگا ۔۔ہوسکتا ہے سابقہ رمضان سے زیادہ ہی قرآن ختم کیے ہون ۔۔ہو سکتا ہے طاق راتوں میں عبادت بھی زیادہ ہی ہوی ہو مگر تلاوت اور عبادات جس ۔۔رب ۔۔کو ۔۔راضی ۔۔کرنے ۔۔کے لیے ۔۔کی ۔۔جاتی ۔۔ہین وہ رب راضی نہیں ہوا ۔۔سنو امت مسلمہ کے ڈیرلیس ارطغرل کے ڈرامای لالی پاپ پر راضی ہونے والے جوانو ۔۔اقبال کے شاہینو رب راضی نہیں ہوا ۔۔اگر رب راضی ہوتا تو باقی سارے کام ہوتے یا نہ ہوتے مسجد نبوی اور مسجد حرام اعتکاف کرنے والوں کے لیے کھول دی جاتی ۔۔۔۔۔۔سنو دنیا کے مال پر دنیا کی محبت پر غرق ہونے والی امت مسلمہ کے جوانو اپنے آپ کو یہ کہہ کے مطمئن تو کرلیا تھا کوی بات نہیں طواف تو پہلے بھی رکا رہاہے ۔۔فلاں فلاں دور مین طواف بند ہوگیا تھا ۔۔
مجھے یہ بتاو کبھی اعتکاف بھی بند ہوا تھا؟؟ ۔طواف میں تو کھوے سے کھوا مل سکتا ہے کرونا چھ فٹ کے فاصلے پر وہاں شکار کرسکتا ہے مگر اعتکاف تو کہتے ہی آئسولیٹ ہونے کو ہیں ۔۔معتکف ہوتا ہی وہ ہے جو لوگوں سے کٹ جاتا ہے تو اگر رب نے اپنے گھر میں آئسولیٹ ہونے کے قابل نہیں سمجھا تو یقین کرو کوی توبہ کوی تلاوت کوی سجدہ کار امد نہیں ۔۔قرآن کے آئینے میں الا بعد لثمود ۔۔سبو دفع کردئیے ثمود والے ۔۔سنو دور کردئے عاد والے ۔۔اعیاذ اللہ ۔۔اللہ لا تقتلنا بغضبک ولا تھلکنا بعذابک وعافینا قبل ذلک ۔۔۔عافیت کے لیے رمضان المبارک میں ایک بھی گھڑی باقی ہے تو مانگ لین سب دنیوی دھندے چھوڑ کے ۔ مرتے وقت بھی تو چھوڑنا پڑیں گے۔