زندگی کے کسی بھی دور میں بچپن کی نٹ کھٹ یادیں جب سر اٹھائیں تو چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ضرور لے آتی ہیں
ہمارا بچپن بھی اسی طرح کی شوخ چنچل اور معصوم یادوں سے بھرا پڑا ہے ۔۔
رمضان المبارک میں اپنے چھوٹے بچوں کی روزہ رکھنے کی ضد ہمیں اپنے بچپن کے اس دور کی طرف لے جاتی ہے جب ہم ابھی روزہ رکھنے کی عمر میں نہیں پہنچے تھے اور اگر ہماری آنکھ صحری کے وقت اتفاقا” کھل جاتی تو ضد کر کے روزہ رکھتے۔۔والدہ صاحبہ بہت محبت سے ہمیں سمجھاتیں کہ چھوٹے بچوں کا آدھے دن کا روزہ ہوتا ہے ،کیونکہ ﷲتعالی بچوں سے بہت محبت کرتے ہیں تو اس لیے بچوں کے روزے بھی آسان رکھے گۓ ہیں ۔۔۔۔۔۔
اور پھر دوپہر میں “اسپیشل افطاری” ہماری خاطر بنائ جاتی ،اور اس طرح روزہ رکھنے کا شوق بھیی بر قرار رہتا اور کمسنی میں طبیعت پر زیادہ بار بھی نہ پڑتا ٫.۔۔۔۔۔۔۔
تراویح کا۔ خصوصی اہتمام ہوتا .بڑے بھائ تو والد صاحب کے ساتھ مسجد جاتے اور امیّ جان باجی اور پھپھو سب بڑے سے صحن میں جاۓ نماز۔ بچھا کر نمازاور تراویح ادا کرتے ۔۔۔ ہماری بڑی اہم ڈیوٹی لگائ جاتی ۔۔۔۔وہ یہ کہ ماچس کی تیلیوں پر سب کی تراویح گنتے جائیں ۔۔۔ اور یہ دلچسپ کام کرتے ہوۓ خود کو بہت” معتبر” محسوس کرتے ۔۔۔۔۔اپنی گڑیا کے کچن سیٹ کی پتیلی میں ایک ایک تیلی کو جمع کرتے ۔۔۔۔۔کئ بار باجی کی گنتی غلط ہو جاتی پر میری گنتی پر سب کو پکا بھروسہ تھا کیونکہ میں نے گنتی کے لیۓ دو الگ رنگ کی پتیلیاں رکھی تھیں ،ہری پتیلی میں پڑھی گئ تراویح ، اور لال پتیلی میں نہ پڑھی گئ تراویح کی تیلیاں ۔۔۔۔!۔
عید کے کپڑے ہمیشہ تیار ہونے کے بعد ہمارے سپرد کیۓ جاتے ،ہمارے بچپن میں بچوں سے ان کی مرضی کا رنگ اور ڈیزائن پو چھنے کا کوئ تصور نہی تھا ۔۔۔۔۔ والدین جو بھی دلواتے ہم اسے حاصل کر کے خوشی سے باغ باغ ہو جاتے ،ان سادے سے رنگ برنگے کپڑوں کے ملکیت ملنے پر ناقابل بیان خوشی محسوس کرتے ،۔۔۔۔۔۔۔ اس خوشی کی۔جھلک آج کے دور کے بچوں کو ان کی پسند اور خواہش کے مطابق سب کچھ دلوانے کے بعد بھی نہیں دکھتی ۔۔۔۔۔۔
خیر تو جناب بات ہو رہی ہے ہمارے بچپن کی تو جناب ہم اپنے عید کے جوڑے اور چپلوں کو امی جان کی نظر سے بچ کر ، کئ بار چپکے سے نکال کر سراہنے کے بعد احتیاط سے واپس رکھ دیتے کیونکہ امی جان کا کہنا تھا کہ” بار بار کپڑوں کو دیکھنے سے ان کا نیا پن ختم ہو جا تا ہے “!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے پیارے چمچماتے جوتے اور چمکتا دمکتا لباس پہننےکا موقع ہمیں عید کو ہی ملتا تھا ۔۔۔۔ آج ہمارے بچوں کی نظروں میں شائد اسی لیۓ ہر چیز کی قدر و قیمت ختم ہو گئ ہے کیونکہ ہم ان کی ہر خواہش زبان پر آنے سے پہلے ہی پوری کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔!۔
عید کا تہوار ہو اور” عید کارڑ” نہ دیۓ جائیں یہ تو ناممکن بات ہو گئ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی جناب ہمارے بچپن میں فردا” فردا” ،درجہ بہ درجہ ہر رشتہ دار کو عید کارڑ دینے کا رواج تھا ۔۔۔
اور عید کارڑ نہ دینا بہت معیوب تصور کیا جاتا تھا ۔
ہمارے بہت سے رشتے دار مختلف شہروں میں رہائش پزیر تھے ،عید سے دس روز پہلے سے عید کارڑ آنے کا سلسلہ جب شروع ہوتا تو چاند رات تک “ڈاکیا چاچا “کو عیدی دے کر عید کارڑز کی” آخری کھیپ” وصول کرنے پر ختم ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید کارڑز پر دلچسپ اشعار لکھنا بھی خوش زوقی کی نشانی سمجھا جاتا تھا ۔۔۔۔مثلا”
1_ ۔ڈبے پہ ڈبہ ڈ بے میں کیک
میری دوست شازیہ لاکھوں میں ایک
(نوٹ : دوسرے فقرے میں دوست کا نام تبدیل کر کے سب کو یہی شعر بجھوا دیتے )
2_ چاول چنتے چنتے نیند آگئ
صبح اٹھ کے دیکھا تو عید آگئ
آجکل کے بچے اپنے دوستوں اور رشتے داروں کی لکھائ سے خصوصی طور سے لکھے گۓ ان عید کارڈز کی اچھوتی خوشی سے محروم ہو گۓ ہیں۔،واٹس ایپ پر فیملی اور براڈ کاسٹ لسٹ گروپس کے سو دو سو ممبرز کو “گوگل بابا “ پر موجود بنے بناۓ ” برقی کارڑ “ایک ہی کلک (click) میں پوسٹ کر کے بھگتا دیا جاتا ہے ۔
آج انٹرنیٹ پر موجود ہزاروں میل دور بسنے والے “فیس بک فرینڈز “کو “عید گریٹنگز”( Eid greatings) بجھوانے کا وقت تو دستیاب ہے ،،پر اپنے پڑوس کے افراد سے سلام دعاکرنے کی بھی فرصت نہی ..۔۔۔۔۔ !
چاند رات ہزاروں خوشیاں لے کر آتی امی جان دادی حضور کے خاندانی” شیر خرمہ ” اور عید کی نماز کے کپڑوں کی تیاری میں مگن ہو جاتیں ۔۔باجی جان گھر میں خصوصی طور سے مہندی کا عرق تیار کرتیں ،اور تنکے سے ہم سب کی ہتھیلیاں خوبصورت مہندی کے ڈیزائن سے سجاتیں ۔۔۔۔۔!
” عیدی” کے تازہ نوٹ اپنے چھوٹے سے بٹوے میں جمع کرنا عید کے روز سب سے” اہم مشن ” ہوتا ۔۔۔
دس روپے کے ہرے رنگ کے نوٹ کی عیدی ہمیں دل و جان سے زیادہ عزیز ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔ آج ہمارے بچے جیب خرچ میں اتنے زیادہ پیسے لیتے ہیں کہ اب ان کی نظر میں 500 یا100 کی عیدی کی وہ اہمیت نہی جو اس وقت کے 10 روپے کے نوٹ میں تھی
ہمارےبچپن میں محلے کے سب افراد ایک دوسرے سے واقف ہوتے تھے کیونکہ اس زمانے میں سارا وقت موبائل اور انٹرنیٹ پر صرف نہی کیا جاتا تھا بلکہ آس پڑوس کی خبر گیری اور احساس کرنا تہزیب کا حصہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔اسی لیۓ ہم سب بچے بے فکری سے ایک دوسرے کے گھر جاتے اور خوب کھیلتے ۔۔۔۔۔۔۔۔
عید کے روز بھی ہم ا پنی تمام سہیلیوں کے” ٹولے” کے ساتھ ایکدوسرے کے گھر عید مبارک کہنے جاتے اور خوب عیدی جمع کر کے لوٹتے ۔۔۔۔۔۔۔
چیز والی دکان سے ڈھیروں من پسند اشیاء عیدی کے پیسوں سے خریدتے اور مل کر” پارٹی” کرتے،۔۔۔۔۔
شام کو چچا جان کی فیملی آجاتی سب مل کر پر تکلف دعوت سے لطف اندوز ہوتے اور خوش گپیوں میں مصروف ہو جاتے ۔ ہم سب کزنز مل کر دالان میں “پکڑن پکڑائ ‘”کھیلتے …….
یوں ہنستے کھیلتے اور اپنوں کے ساتھ خوشیاں بانٹتے ہماری” بچپن کی عید ” کا اختتام ہوتا ۔ ۔۔۔۔۔۔ عید پر اپنے بڑوں سے ملنے جانا۔انُ کی دعائیں لینا ، رشتے داروں سے بزات خود مل کر تحائف کا تبادلہ کرنا یہ سب ہماری وہ روایات ہیں جن کے بغیر عید کی خوشیا ں ادھوری اور پھیکی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے بچپن کا دور ہو یا آج کی جدید ٹیکنالوجی کا دور ہو عید کی اصلی خوشی تو اپنوں کے ساتھ اسے منانے میں ہی ہے..