عید الفطر کا دن خالق کائنات کی طرف سے روزوں اور ماہ رمضان میں کی گئی عبادت الٰہی کا انعام ہے، اور دعاؤں کی قبولیت کا دن ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ملائکہ کے سامنے فخر کرتے ہیں اور انہیں مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ’’اے میرے فرشتو! اس اجیر (مزدور) کی جزا کیا ہے؟ جس نے اپنے ذمہ کا کام پورا کر دیا؟فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اس کی مزدوری اسے پوری پوری دے دی جائے۔
اللہ تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ اے میرے ملائکہ ! میرے ان بندوں نے اپنا وہ فرض پورا کر دیا جو میں نے ان پر عائد کیا تھا۔پھر اب یہ گھروں سے (عیدکی نماز ادا کرنے اور )مجھ سے گڑ گڑا کر مانگنے کے لیے نکلے ہیں۔قسم ہے میری عزت اور میرے جلال کی ،میرے کرم اور میری بلند شان کی اور میری بلند مقامی کی ،میں ان کی دعائیں ضرور قبول کروں گا۔پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں، جاؤ میں نے تمہیں معاف کر دیا اور تمہاری برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دیا‘‘۔ گرمی کی حدت وشدت میں روزے کی محنت ومشقت اٹھانے والے ایسے خوش نصیب ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی رضا ومغفرت اور گناہوں کی بخشش کے اعزاز سے نوازتے ہیں، اور ان کے اعزاز میں ہونے والی تقریبات کا اہتمام و انتظام فرش پر ہی نہیں عرش پر بھی کیا جاتا ہے، جنت کو ان کے اعزاز میں سجایا، سنوارا جاتااور فرشتوں میں ان کا تذکرہ ہوتا ہے۔
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس ماہ مبارک کی بر کتوں ، رحمتوں کو سمیٹا، گناہوں کو بخشوایا، قیام اللیل کیا، دن کو روزے رکھے، سب سے قطع تعلق ہوکر اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کیا،صبر و ایثار کو اپنایا ، مساجد کو آباد کیا، ، قرآن مجید کوسنا اور سنایا، اپنی جبینوں کو اللہ ربّ العزت کے حضور جھکایا، اپنی زندگیاں، شب روز، معاملات، معمولات، کاروبار، گھربار کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کا عہد کیا۔ جھلسا دینے والی گرمی اور بے تاب وبے قرار کر دینے والی بھوک وپیاس کو برداشت کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے رمضان المبارک کے مہینے میں محنت ومشقت کی۔ عید الفطر ماہ رمضان کے ان روزوں کا انعام ، اور امت مسلمہ کے مسلمانوں کے لئے خوشیوں کی نوید ہے ۔
ہمیں احتیاط کا دامن تھامتے ہوئے اس دن کو اپنے گناہوں سے مغفرت کا دن بناناچاہیے۔ اور عید سعید کی خوشیوں کے لمحات میں ایسے ہر کام سے بچنا چاہیے جو شعائر اسلام کے منافی ہوں۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں۔ ’’عید ان کی نہیںجنہوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو زیب تن کیا، بلکہ حقیقتاً عید تو ان کی ہے جو خدا کی وعید اور پکڑ سے ڈر گئے۔ عید ان کی نہیں جنہوں نے بہت سی خوشبوؤں کا استعمال کیا عید تو ان کی ہے جنہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے۔‘‘
پورے ماہ رمضان قید رہنے کے بعد اس دن شیطان جو ہمارا ازلی دشمن ہے آزاد ہوجاتا ہے ،ہمیں احتیاط سے کام لینا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس دشمن کے بہکاوے میں آکر ماہ رمضان میں سمیٹی نیکیوں کو ضائع کردیں، اور عذاب الٰہی کے مرتکب ٹھہریں۔
لہٰذا عید کے دنوں میں غیر شرعی ، غیر اسلامی کاموں سے ، بری مجلسوں میں جانے ، ناچنے گانے اور بے ہودہ پروگراموں میں شرکت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اور عید سعید کی خوشیوں میں ان افراد کو ضرور شامل کرنا چاہئے جنکا کوئی پوچھنے والا نہیں، کیونکہ ہمارا مذہب اسلام سب سے زیادہ معاشرتی اور سماجی فلاح، مساوات اور روداری کا درس دیتا ہے، اور آسودہ حال مسلمانوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ معاشی طور پر بدحال لوگوں کا سہارا بنیں، کیونکہ اپنے لیے تو سب جیتے ہیں، جینا وہ ہے جو دوسروں کی خاطر ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’مخلوق اللہ کی عیال ہے اور اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے جو اس کی عیال سے محبت کرے۔‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ خدا کی قسم وہ مومن نہیں، جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوک سے کروٹیں بدلتا رہے۔‘‘ اس لئے عید سعید کے موقع پر ہمیں خوشیاں منانے یا خوشیاں پانے سے زیادہ خوشیاں بانٹنا چاہیے، اور اپنی خوشیوں میں غرباء و مساکین اور محتاجوں کو بھی شامل کرنا چاہیے،کیونکہ یہ خوشیاں ہی تو زندگی کی راہوں میں تازگی اور مسرتوں کے چراغ ہیں اگر انکی روشنی دوسروں کی راہوں میں بکھیر دی جائے تو ان میں کمی نہیں ہو گی۔ عید کا دن جہاں پیار محبت اور خوشیاں بانٹنے کا دن ہے وہاں نفرتوں ، ملامتوں اور ناراضگی کے مٹانے کا بھی دن ہے ، عید کے موقع پر نفرتوں کو بھول کر ، رنجشوں کو ترک کرکے عزیز رشتہ داروں کو گلے سے لگا نا چاہیے، نہ معلوم اگلی عید کے موقع پرہمیں ان کی یا انہیں ہماری رفاقت نصیب ہو یانہ ہو۔
عید کے موقع پر والدین کو خصوصی وقت دینا چاہیے، کیونکہ زندگی کے انتہائی تیز رفتار شب و روز میں اکثر بزرگوں کو دینے کیلئے ہر چیز ہم خرید کر تو دے دیتے ہیں اور اشیائے صرف کا انبار بھی لگا دیتے ہیں مگر ایک چیز جسکی شدید کمی ہے اور وہ وقت ہے جو ہم لوگ اپنے والدین اور بزرگوں کو نہیں دے پاتے۔ عید چونکہ ماہ صیام میں تزکیہ النفس کا انعام ہے، اس لئے جو خوشی اور مسرت کی کیفیت اس تہوار میں پائی جاتی ہے وہ کسی اور تہوار میں نہیںلیکن ہمارے بدلتے رویوں اور مصنوعی ماحول کی وجہ سے عید کی حقیقی خوشیاں مانند پڑ جاتی ہیں۔ عید کے موقع پر حقیقی خوشی ایک دوسرے سے ملنے اور مل بیٹھنے سے حاصل ہوتی ہے لیکن ہم نے باقاعدہ ملنے کے بجائے موبائل کے ذریعے پیغامات کو کافی سمجھ لیا ہے۔
ہمیں نہ صرف اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرنا چاہئے بلکہ عید کی خوشیوں کو دوبالا کرنے عید کے پرمسرت لمحات محروم طبقات کے سنگ گزارنا چاہیے۔ ہسپتالوں میں داخل مریضوں، چائلڈ ہوم اور یتیم خانوں میں پرورش پانے والے بچوں، اولڈ ہاؤس میں زندگی کے دن پورے کرنے والے بزرگوں، نابینا و معذور افراد کے اداروں اور جیلوں میں پابند سلاسل قیدیوں کے ساتھ عید مناکر عید کی مسرتوں کو دوبالا کیا جاسکتا ہے ۔