اپنی جائے پیدائش اپنے شہر سے کس کو محبت نہیں ہوتی ۔ یہ فطری محبت ہے جو کہ ہر ایک کے دل میں ہے اور وہ شہر جوکہ خانہ خدا بھی اپنے اندر رکھتا ہے ۔۔۔۔اس سے جدا ہونا تو اور زیادہ شاق تھا ۔ حضورؐ اکثر خانہ خدا کو کافی دیر تک دیکھا کرتے اور اپنے دل و نگاہ کی سیرابی کا سامان کرتے۔ ہجرت سے قبل آپ ؐ دیر تک خانہ کعبہ کا دیدار کرتے اور فرماتے”اے مکہ ! تو مجھے بہت پیاراہے میں تجھے ہرگز چھوڑ کر نہ جاتا اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی” مگر یہ مشقت بھی رحمت العالمین ؐ اس قوم کی فلاح اخروی کے لیے اٗٹھا رہے تھے ۔
صلح حدیبیہ کےموقع پر مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے جو شقیں مشریکین مکہ نے لکھوائیں تھی اور جو حضرت عمر اور حضرت علی جوکہ معاہدہ تحریر کررہے تھے بڑی مشکل سے تحریر کررہے تھے یہ معاہدہ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ مشریکین مکہ سے دب کر کیا جارہاتھا مگر اللہ اور اس کا حبیب ؐ ہی جانتا تھا کہ اس کے کیا نتائج آئیں گے ۔ ذیقعدہ 6 ھجری کا یہ واقعہ ہے اس کے بعد دو سال کے اندر اندر یہی تمام شقیں جوکہ مکہ کے مشرکین کے مفادات کا تحفظ کررہی تھی اللہ تعالٰی نے کچھ ایسی صورت حال پیدا فرمادی کہ مشرکین اس معاہدے کے پابند نہ رہے اور انہوں نے اس معاہدے کی صریح خلاف ورزی کی۔
اس خبر کے بعد حضورؐ سے دس ہزار مسلمانوں کا ایک عظیم ا لشان لشکر تیار کیا ۔ آپ ؐ اس غزوے کی تیاری بالکل خاموشی سے فرمارہے تھے اور مسلمانوں کواس بات کی تاکید کردی گئی تھی کہ کوئی خبر مکہ نہ جانے پائے یکایک آنحضورؐ کو رب تعالٰی نے یہ خبر دی کہ جنگ کی تیاریوں کی خبر مدینےسے باہر جاچکی ہے ۔ حضورؐ نے معلوم کروایا تو معلوم ہوا کہ ایک گانے والی عورت مکہ سے مدینہ آئی تھی اور حضرت حاطب ابن بلتعہ رضی اللہ تعالی عنہ جوکہ بدری صحابی تھے انکا خط لے کر مکہ کی طرف جارہی ہے آپ ؐ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور ایک دوسرے صحابی کو اس کے پیچھے دوڑا دیا تیز رفتاری سے اس عورت کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے رستے میں ہی جالیا اس کی تلاشی لی گئی تو خط اس کے سر کے بالوں برآمد ہوا۔
اس کو گرفتارکرکے مدنیے لا یا گیا اس نےیہ بات بتائی کہ مجھے یہ خط حضرت حاطب بلتعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے دیا تھا کہ یہ خط مکہ پہنچا دوں حضرت حاطب ابن بلتعہ کو بلایا گیا ان سے آنحضورؐ نے پوچھا تو انہوں نے اقرار کرلیا کہ یہ غلطی ان سے ہوئی ہے یہ ایک انتہائی خطرناک غلطی تھی جس کی سزا موت ہی ہوسکتی تھی کیونکہ یہ ایک اہم جنگی راز تھا جس کو حضرت حاطب نے مشرکین مکہ کو پہنچانے کی کوشش کی تھی ۔ حضرت حاطب غزوہ بدر سے لے کر ہرمعرکہ میں حضورؐ کے ہم رکاب رہے تھے ۔
حضور ؐ نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ یا رسول اللہ ؐ میرا خاندان مکہ میں اکیلا ہے میں نے یہ راز بطور احسان ان تک پہنچانے کی غلطی کی تھی کہ مکہ والے اس احسان کا لحاظ کرکے جنگ کے موقع پر میرے خاندان کے خلاف کوئی کارروئی نہ کریں۔ صحابہ کو یقین تھا کہ ان کی سزا موت ہے مگر رحمت دوعالم ؐ نے ان کو معاف فرمایا۔
جب مکہ پر چڑھائی کے لیے آنحضورؐ مد ینے سے باہر نکلے تو یہ سفر آپ ؐ نے انتہائی رازداری سے جاری رکھا اور کسی کو اس بات کی بھنک بھی لگنے دی کہ آپ ؐ مکہ پر چڑھائی کے لیے جارہے ہیں آپ ؐ نے حکمت کے تحت غیر معروف راستوں کا انتخاب کیا اور مکہ کے اس کے اس سمت سے مکہ کے مشریکین کے سرپر پہنچے کہ جہا ں سے وہ گمان بھی نہیں کرسکتے تھے۔ رات کو آپ ؐ نے سب کواپنا الگ الاؤ روشن کرنے کی ہدایت فرمائی۔
رات کی تاریکی میں یہ منظر بڑا بارعب لگ رہا تھا ایسا لگتاتھا کہ کہ کوئی بہت بڑا لشکر حملہ کے لیے سر پر آگیا ہے ۔ جب شہر مکہ سے یہ منظر دیکھا گیا تو ابوسفیان نے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ کی پنا ہ حاصل کی اور وہ حضور ؐ کے پاس گیا تاکہ امان حاصل کرسکے سردار مکہ ابوسفیان کے سامنے سے اسلامی لشکر کو گزاراگیا تو اس کے دل میں اسلام کا رعب بیٹھ گیا حضور ؐ کے سامنے پیش کیا گیا حضور ؐ نے اس کو اسلام کی دعوت دی جوکہ اس نے قبول کی۔
قائد انقلاب ؐ نے حکمت کے تحت لشکر کو کئی اطراف سے مکہ میں داخل ہونے کا حکم دیا آپ نے ؐ چند اشخاص کے علاوہ سب کے لیے عام معافی کا اعلان فرمادیا اور کہاکہ جو شخص حرم میں داخل ہوجائے ، جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے ، جو ابوسفیان کے گھر میں چلاجائے ہتھیار رکھ رکر ان کو عام معافی ہے ۔ پہلے کی طرح آج بھی محسن انسانیت ؐ کی انتہائی کوشش تھی کہ خون خرابے کے بغیر مکہ فتح ہوجائے ۔ اکاّ دکاّ جھڑپ اور چند انسانوں کی جانوں کے نقصان کے ساتھ یہ عظیم فتح مکمل ہوئی ۔
دنیا کی تاریخ میں انسانیت نے بڑے بڑے فاتح دیکھے مگر ایسا فاتح نہ دیکھا جس نے اپنے بادشاہی کےلیے شہر کو فتح نہ کیا بلکہ اس نے مالک کائنات کی فرمانروائی کو انسانوں پر قائم کرنے کے لیے رات دن جدوجہدکی اور ایسی جماعت تیار کی اوراس کی تربیت کی جوکہ اپنا سب کچھ اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے قربان کرنے پر تیار ہوئی۔ اتنی عظیم فتح کے موقع پر عاجزی کا یہ عالم تھا کہ سررب کےحضور جھکاہوا تھا کجاوے سے لگا جاتاتھا اللہ کی کبریائی کا اعلان تھا۔
بڑے بڑے سرداروں کی موجودگی میں حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ کا کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے کا حکم سروردوعالم ؐ کی طرف سے ہوا سرداروں کو یہ ناگوار گزرا مگر۔۔۔ آج تو صدیوں سے انسانوں کی غلامی میں جکٹری ہوئی انسانیت آزاد ہوئی آج بندے ، بندوں کے رب کی بندگی میں آزاد ہوئے تھے۔ اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی۔آج عبدالمطلب کے پوتے آمنہ کے درّے یتیم نے ہمیشہ کے لیے شرک اور کفر کی کمر توڑکررکھ دی اور لب مصطفٰےؐ سے صدا بلند ہورہی تھی “اور حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بےشک باطل مٹنے ہی کےلیے ہے”۔
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی۔۔۔ آج وہ لڑکا جس کی عمر دس گیارہ سال تھی اس نے حق کی صدا پر اپنی کم عمری کےباوجود لبیک کہا اور ایک عظیم مقصد فریضہ اقامت دین یعنی اللہ کی زمین پراللہ کا نظام کو اپنا نصب العین بنایا آج وہ خانہ خدا کو رسول عربی ؐ کی ساتھ بتوں سے صاف کررہا تھا ۔جس طرح کل انسانیت صدیوں کے جبر،ظلم اور استحصال سے نکلی تھی آج بھی اسی طرح انسانیت فلاح اور نجات حاصل کرسکتی ہے مگر شرط وہی ہے کہ اپنی پوری زندگی میں رب کی بندگی اختیار کی جائے اور حضرت محمد ؐ کی پیروی اختیار کی جائی اور زمام کار خدا سے پھرے ہوئے لوگوں سےچھین کر اللہ کے صالح بندوں کے ہاتھ میں دی جائے۔