خدمت خلق کا تصور بہت وسیع ہے، قرآن پاک میں جابجا اس کی تلقین کی گئی ہے اللہ کی خوشنودی کے لئے اس کی مخلوق کے لئے کچھ کرنے کا ذکر ایمان کے بعد سب سے پہلے کیا جاتا ہے حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا مثالی دور حکومت بھی ہمارے سامنے ہیں۔۔۔لیکن سامنے تو ہمارے اس وقت اس کرونا وائرس کی وبا اور حالیہ معاشی صورتحال بھی ہے جس طر ح د کھا دکھا کر ضرورت مند اور غریب لوگوں کی مدد کی جا رہی ہے اس عمل نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ ہم اب تک اسلام جیسے مکمل اور آفاقی مذہب سے تعلق ہونے کے باوجود اپنے نفس کے غلام ہیں نمودونمائش کو فرض سمجھتے ہیں اور اس فرض کے ہم اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ سامنے کھڑے ضرورت مند اور غریب شخص کی بے بسی اور لاچاری جو آپ سے راشن لیتے وقت اس کے چہرے پرہو تی ہے دکھاوے کی دھند او رکیمرے کی شٹر شٹرکے شور میں نظر نہیں آتی نہ سنائی دیتی ہے۔
اس دھند میں کھوئے ہم بھول چکے ہیں دکھاوا اللہ کو پسند نہیں! مدد ایسے کی جائے کہ سائے کو بھی پتہ نہ چلے لیکن یہاں تو سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف پورے شہرکو بلکہ ملک ملک کو پتہ چلتا ہے۔۔۔ایک غریب ضرورتمند کو تو پتا بھی نہ ہوگا کہ اس کی راشن لیتی تصویر سوشل میڈیاپر کہاں کہاں اپلوڈ ہوگی کتنے لائکس ملیں گے کتنی واہ واہ ہوگی تو پھر اس واہ واہ کے شور میں اللہ کی ناراضگی کا احساس ہو گا؟ کہ اس ذات نے آپ کو اس قابل سمجھا کہ ضرورت مند کی آواز آپ تک پہنچائی اور اپنے بندوں کا وسیلہ آپ کو بنایا اور جب آپ نے اسی وسیلہ کو اٹھا کر سوشل میڈیا پر ڈال دیا جو کہ بالکل ضروری نہیں تھا تو اللہ کی خوشنودی حاصل بھلا کیسے ہوگی ؟ اور وہ سفید پوش لوگ جو سب سے زیادہ لاک ڈاؤن سے متاثر ہوے ہیں جو اصل مستحق ہیں لیکن مارے غیرت اور شرم کے بول ہی نہیں پاتے اور فاقوں کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی دکھاوے کے چکر میں ضرورت مند سفید پوش لوگ رہ جاتے ہیں اور اور غیر ضرورت مند بار بار لے کر چل پڑتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے نمود و نمائش کے لبادے کو اتار پھینکے بجائے لوگوں سے تعریف سننے کے اپنے رب پر آسرا کریں بے شک وہ ذات رحیم و کریم ہے آپ کی خدمت خلق کا صلہ آپ کو آخرت میں مل جائے گا۔۔۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خدمت خلق اللہ کو راضی کرنے اور اپنا نامہ اعمال سدھارنے کے لیے کی جائے کیونکہ خدا ہمیں ہمارے مال سے نہیں بلکہ ہمارے اعمال کو دیکھتے ہوئے جنت میں داخل کرے گا اپنی خدمت خلق کو جاری رکھیں جو کہ ہمارا اخلاقی فرض اور اسلامی ذمہ داری ہے بس دکھاوے سے استثنیٰ حاصل کرکے خود نمائی کے خول سے باہر آکراور انسانیت کے زمرے میں۔۔۔دعا گو ہوں اللہ پاک جلد ہمیں اس وبائی مرض سے نکالے اور خدمت خلق کرنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ محروم وسائل حقداروں کی خبر گیری کرنا اور ان تک مالی امداد فراہم کرنا بھی جنتی و متقی لوگوں کا شعار ہے ؎
اپنے دل وچ عاجزی پیدا کر
دکھا وے نو پرے کر
خدا وی ہو جائیگا راضی
تو اک واری کوشش تو کر