عالمی سطح پر نوول کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز دنیا کے سبھی ممالک کے لیے کسی بڑی آزمائش سے کم نہیں ہیں۔ عالمی سطح پر قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع پوری انسانیت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ایسے مشکل وقت میں دنیا کی نظریں یقینی طور پر بڑے ممالک کی قیادتوں پر بھی ہیں جہاں وسائل کی دستیابی سے یہ توقعات اور امیدیں وابستہ ہیں کہ جلد ویکسین کی تیاری سے اس وبا سے نجات ممکن ہو گی۔مگر دنیا کی واحد سپر پاور کہلانے والے ملک امریکا میں نوول کورونا وائرس کے باعث وسیع ہلاکتوں اور متاثرہ مریضوں کی تعداد میں ہوشربا اضافے کے باوجود سیاسی ترجیحات میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آ رہی ہے۔
نوول کورونا وائرس نے امریکی عوام کے ساتھ ساتھ صدارتی وائٹ ہاوس کو بھی اپنا نشانہ بنایا ہوا ہے ۔ اعلیٰ امریکی عہدہ دار وائرس کا شکار ہونے کے بعد خود کو رفتہ رفتہ قرنطین کر رہے ہیں لیکن اس سب کے باوجودامریکی سیاستدانوں کی چین مخالف الزام تراشی بدستور جاری ہے۔امریکی حلقوں نے یہ موقف اپنایا کہ وائرس چین کے شہر ووہان کی ایک لیب کی پیداوار ہے مگر ڈبلیو ایچ او سمیت دنیا کے مستند ماہرین نے امریکی بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے وائرس کو قدرتی قرار دیا۔ چین نے واضح کیا کہ وائرس سے متعلق تحقیق سیاستدانوں کا نہیں بلکہ سائنسدانوں کا کام ہے لہذا انھیں اپنا کام کرنے دیجیے۔
امریکا کی یہ کوشش بھی جاری ہے کہ چین کی مخالفت میں دیگر ممالک کو اپنا ہمنوا بنایا جائے۔متعدد تجزیہ نگار صدر ٹرمپ کے ان اقدامات کو نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیابی کے لیے “چین کارڈ” کا استعمال قرار دے رہے ہیں۔دوسری جانب چین واضح کر چکا ہے کہ اُسے عراق سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا نہ رہا جائے۔چین اپنے جائز مفادات کا تحفظ کرنا بخوبی جانتا ہے۔دنیا کو یاد ہو گا کہ دو ہزار تین میں عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بنا کر امریکا نے عراق پر چڑھائی کر دی تھی مگر بعد کے حقائق نے ثابت کیا کہ اس سرگرمی کے درپردہ مقاصد کچھ اور تھے۔اگرچہ بعد میں امریکا سمیت دیگر ممالک کی قیادتوں نے عراق پر حملے کو غلطی تسلیم کر لیا مگر اُس وقت بہت دیر ہو چکی تھی اور عراق آج بھی مسلح تنازعات کا شکار ہے۔
چین کی مخالفت میں امریکہ اپنے دیگر اتحادی ممالک کو اپنےساتھ رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ ہر حربہ استعمال کر رہا ہے ۔اسی باعث دیگر ممالک بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔حالیہ دنوں آسٹریلوی جریدے ” سڈنی مارننگ ہیرالڈ” نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ آسٹریلیا امریکہ کی جانب سے ووہان لیب سے متعلق غیر مصدقہ دعوے کے باعث پریشانی کا شکار ہے۔رپورٹ کے مطابق آسٹریلوی ” ڈیلی ٹیلی گراف” نے دو تاریخ کو پندرہ صفحات پر مشتمل ایک خفیہ دستاویز جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ نوول کورونا وائرس ممکنہ طور پر ووہان کی لیب سے آیا ہے ۔آسٹریلوی حکومت اور سینئر انٹیلی جنس حکام نے یہ شبہ ظاہر کیا ہے کہ یہ نام نہاد خفیہ فائل کینبرا میں امریکی سفارتخانے کے ایک اہلکار کی جانب سے دانستہ میڈیا کو جاری کی گئی ہے۔آسٹریلوی حکام بھی قائل ہیں کہ امریکا آسٹریلوی میڈیا میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کر رہا ہے تاکہ چین مخالف جذبات کو ہوا دی جا سکے۔آسٹریلوی میڈیا میں یہ بھی کہا جا رہا ہے حقائق واضح کرتے ہیں کہ امریکا وبا پر کنٹرول کھو چکا ہے اور اپنے اتحادی ممالک میں وبا کے پھیلاو کا موجب بھی بن رہا ہے۔
اس سے پہلے لاطینی امریکی اور افریقی ممالک سے بھی ایسے ہی شکوے سامنے آئے تھے کہ امریکا نے ایک ایسے وقت میں تارکین وطن کو اپنے ممالک بھیجنے کا فیصلہ کیا جب ملک میں وبا سنگین ہو چکی تھی۔اسی طرح دنیا بھر میں وائرس کی ابتدا سے متعلق بھی بحث بدستور جاری ہے۔چین کے شہر ووہان کو نوول کورونا وائرس کا ابتدائی مرکز قرار دیا گیا تھا مگر بعد میں دنیا کے مختلف ممالک بشمول فرانس ،اٹلی ،برطانیہ سے سامنے آنے والی رپورٹس کچھ اور کہانی پیش کرتی ہیں۔ امریکی میڈیا میں حالیہ دنوں تواتر سے ایسی رپورٹس سامنے آئیں جس میں وائرس کی شروعات پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔امریکی ریاست نیو جرسی کے شہر بیلی ویلی کے میئر مائیکل ملہم کے حوالے سے بتایا گیا کہ وہ نومبر دو ہزار انیس میں ہی کووڈ-۱۹ سے متاثر ہوگئے تھے۔
میئر کی تازہ ترین تشخیصی رپورٹس کے مطابق ان کے جسم میں پہلے سے ہی کورونا وائرس اینٹی باڈیز موجود ہیں۔ جبکہ امریکا کا اس حوالے سے یہ موقف رہا ہے کہ وہاں کووڈ-19 سے متاثرہ پہلے کیس کی تشخیص جنوری 2020 میں ہوئی تھی۔ یہ تاریخ مائیکل ملہم کے انفیکشن سے دو ماہ بعد کی ہے۔گیارہ مارچ کو امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان میں کورونا وائرس کے بارے میں سماعت کے موقع پر ، امریکی سی ڈی سی کے ڈائریکٹر ریڈ فیلڈ نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکا میں کووڈ-19 سے ہلاکتوں کے ایسے متعدد کیسز موجود ہیں جنہیں پہلے فلو کی وجہ سے ہونی والی اموات کے طور پر درج کیا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ امریکی نرسنگ ہومز اور نگہداشت کے دیگر اداروں میں نظام تنفس کے امراض کا اچانک سامنے آنا بھی توجہ طلب نکتہ ہے۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی سترہ اپریل کو جاری ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محققین نے کیلیفورنیاریاست کی سانتا کلارا کاؤنٹی میں 3300 افراد کے نمونوں کا تجزیہ کیا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکا میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی اصل تعداد سرکاری طور پر بتائی جانے والی تعداد سے 50 تا 85 گنا زائد ہوسکتی ہے۔ امریکا کووڈ۔19ے باعث اس وقت ہلاکتوں کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے ۔ امریکہ میں اندرونی حلقوں سمیت عالمی برادری بھی انسداد وبا میں ٹرمپ انتظامیہ کے سست ردعمل پر تنقید کر رہی ہے۔ بالخصوص امریکہ کی جانب سے ملکی سطح کے علاوہ بیرونی ممالک میں قائم کی جانے والی حیاتیاتی لیبز کے حوالے سے بھی عالمی حلقوں میں تشویش پائی جا رہی ہے اور بہت سارے سوالات سامنے آ رہے ہیں۔ناقدین گزشتہ برس جولائی میں امریکا کی جانب سے میری لینڈ میں فورٹ ڈیٹریک بائیو کیمیکل بیس کی اچانک بندش کی بابت بھی جاننا چاہتے ہیں جبکہ دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ایسی حیاتیاتی تجربہ گاہوں کی موجودگی اور حقائق سے آگاہی چاہتے ہیں۔
ایک ایسی کٹھن آزمائش میں جب انسانیت کی بقاء ایک چیلنج بن چکی ہے وہاں سیاسی مفادات کی جستجو کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔یہ وقت ایک دوسرے پر الزام تراشی کا نہیں ہے ۔چین اور امریکہ دونوں کا اس وبا کے خلاف اتحاد و تعاون عالمگیر مفاد میں ہے لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب خودغرضی ،اناپرستی اور متکبرانہ رویوں کو ترک کیا جائے اور کھلے پن اور شفافیت سے آگے بڑھتے ہوئے انسانیت کی خدمت کی جائے۔