امریکا اور چین کے مابین لفظی جنگ گاہے بگاہے جاری رہتی ہے۔اس لفظی جنگ میں کبھی تناؤ دیکھنے کو ملتا ہے تو کبھی نرمی،یہ ایک ایسی جنگ ہے جس کا سب سے بڑا سبب چین کا ترقی کے میدان میں ابھرتا ہوا رخ ہے۔اس لڑائی میں مزید شدت تب دیکھنے کو ملی،جب امریکی اہلکاروں نے کووڈ 19 کو پہلے “ووہان وائرس” اور پھر “چینی وائرس”کے نام سے موسوم کیا۔
اس کے جواب میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکہ کو متنبہ کیا کہ وہ چین کو گالی دینے سے پہلے “اپنے کام پر دھیان دیں”۔چین کی وزارت خارجہ کے ایک اور اہلکار نے امریکا کے لیے کچھ سوالات اٹھا دیے اور امریکہ سے مطالبہ کردیا کہ وہ اس امریکی فوجی، جو ووہان میں فوجی مشقوں میں حصہ لینے آیا تھا اور ممکنہ طور پر وائرس کا نشانہ بنا، اس کے ٹیسٹ کے نتائج دنیا کو دکھائے۔
امریکی اہلکاروں کی جانب سے کووڈ 19 کو “چینی وائرس”کہے جانے کے بعد امریکا میں چین کے سفیر نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس وبا کو سیاسی رنگ نہ دیں۔کووڈ 19 کے وقوع پذیر ہونے کے بعد جب دونوں ملکوں کے درمیان فضا مزید کشیدہ ہوئی ہے تو چین سے شائع ہونے والے گلوبل ٹائمز نے توسیڈائڈز ٹریپ کے خالق پروفیسر گراہم ایلیسن کا انٹرویو کیا اور موجودہ حالات کے پسِ منظر میں ان سے سوالات کیے۔
پروفیسر گراہم ایلیسن نے کووڈ 19 کے حوالے سے لگائے جانے والے الزامات کو اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی ایک “بچگانہ کوشش” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ امریکی اہلکاروں کی جانب سے صورتحال سے نمٹنے کے لحاظ سے اپنی ناکامی کو چھپانے کی ایک کوشش ہے۔اس عالمی وبا کے دوران ایک نظریاتی بحث بھی جاری ہے۔ امریکا جو لبرل ڈیموکریسی کا داعی ہے، وہ چین کے نظامِ حکومت پر انگلیاں اٹھا رہا ہے جس میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو چھپانے کا الزام سرفہرست ہے۔
لیکن دوسری جانب ایسی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں کہ چین کے یک جماعتی آمرانہ نظام حکومت نے اسے موقع دیا ہے کہ وہ ایک بڑے علاقے کو بغیر کسی جھجک مکمل طور پر لاک ڈاؤن کر کے وائرس پر جلدی سے قابو پالے جبکہ لبرل ڈیموکریسی کا ردعمل اتنا تیز نہیں جتنا چین کا تھا۔پروفیسر گراہم ایلیسن نے کہا کہ اگر یک جماعتی آمرانہ نظام نے انتہائی قابلیت کے ساتھ اپنے شہریوں کی زندگی کے بنیادی حق کا تحفظ کر لیا ہے جبکہ جمہوری حکومتیں ناکام رہی ہیں، تو ایسی صورتحال میں چینی اقدمات پر اعتراضات “انگور کھٹے ہیں”کے مترادف ہیں۔
امریکہ کے بڑے اتحادی، جن میں برطانیہ، سپین اور فرانس شامل ہیں، وہ بھی کورونا وائرس کے خطرے سے بری طرح متاثر ہیں۔ تاہم وہ وائرس کو سیاسی رنگ دینے کی کوششوں سے خود کو دور رکھے ہوئے ہیں۔البتہ امریکہ کے ایک نئے اتحادی ملک، انڈیا سے ایسی آوازیں ابھر رہی ہیں جن میں چین اور پاکستان کو سبق سکھانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔انڈیا کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزی بورڈ کے رکن، تلک دیواشر نے”دا ٹرائیبون”میں لکھے گئے ایک مضمون میں کورونا وائرس کی وبا کے دوران چین اور پاکستان کے رویے پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ کووڈ 19 کے دنیا میں پھیلاؤ کے حوالے سے چین کا رویہ “مجرمانہ” تھا اور وہ اس نتائج سے بچ نہیں سکتا۔
تلک دیواشر نے، جنہیں انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال کے انتہائی قریب سمجھا جاتا ہے، لکھا کہ اب دنیا کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ اتنے لمبے عرصے تک اپنی مینوفیکچرنگ کو چین کے حوالے کرنے کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ تلک دیواشر، امریکی اہلکاروں کی طرح، عالمی ادارۂ صحت سے بھی ناراض ہیں جس نے کورونا وائرس پر قابو پانے میں چینی اقدامات کی تعریف کی ہے۔تلک دیواشر لکھتے ہیں: چین جتنا بھی ڈبلیو ایچ او کے اہلکاروں کو رشوت دے لے اور غلط معلومات پھیلا لے، چین ذمہ داری سے نہیں بچ سکتا۔
ابھی تک یہ بحث زوروں پر ہے کہ یہ وائرس کہاں سے آیا۔ کیا یہ قدرتی ہے یا انسان کا بنایا ہوا ہے اور کسی لیبارٹری سے جان بوجھ کر چھوڑا گیا ہے۔ یا غیر ارادی طور پر یہ لیک ہوا؟ابھی تک ایسی کوئی ٹھوس شہادت سامنے نہیں آئی ہے کہ اسے کسی ملک نے لیبارٹری میں تیار کر کے کسی مذموم مقاصد کے لیے دنیا میں پھیلایا البتہ اشاروں کنائیوں میں الزام چین کی دہلیز پر دھرا جا رہا ہے۔
جب دنیا میں کورونا وائرس کی گرد بیٹھ جائے گی تو یقیناً امریکہ اور اس کے اتحادی اس کی طرف متوجہ ہوں گے اور ان کھربوں ڈالروں میں سے حصہ مانگیں گے جو چین نے مغربی معیشتوں کے ساتھ مل کر اکٹھے کیے ہیں۔اب مزید وقت ہی بتاۓ گا کہ امریکہ اپنے الزامات میں کتنی صداقت رکھتا ہے،اور چین خود کو ان الزامات سے کیسے معصوم ثابت کرتا ہے۔