گمشدہ اسلامی تاریخ یعنیlost Islamic history ایک ایسی کتاب ہے جسے فیراث الخطیب نے تحریر کیا ہے۔یہ ایک پروفیسر ہیں اور اسلامی تاریخ ان کا خاص مضمون ہے۔یعنی اسلامی تاریخ کے استاد ہیں۔ان کی اس کتاب کو پاکستان میں شائد چند روز قبل صرف چندلوگ ہی جانتے ہوں گے،ہو سکتا ہے کہ اس کے قارئین کی تعداد کو انگلیوں پہ گنا جا سکتا ہو۔لیکن وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کے بعد کہ قرنطینہ کے ان ایام میں فارغ بیٹھنے سے بہتر ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے۔
بس اس بیان کے نشر ہونے کی دیر تھی کہ نہ جانے کن کونے کھدروں سے ایسے ایسے علامہ اور فلاسفرز حضرات نے سر نکالنا شروع کردیا کہ سوشل میڈیا پر سیاسی مخالفین یہ بھی بھول گئے کہ عمران خان نے کتاب پڑھنے کا کہا ہے پٹرول، ڈیزل یا اشیائے ضروریہ میں گرانی کا اعلان نہیں فرمایا۔بس مخالفت برائے مخالفت شروع ہو گئی۔ ایسے میں مجھے سعدی شیرازی کے دو اقوال یاد آگئے جو قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔ایک یہ کہ سعدی شیرازی حکایات سعدی میں کہتے ہیں کہ عقل کی بات اگر دیوار پہ بھی لکھی ہو تو اسے حاصل کرلو۔دوسری بات یہ کہ مت سوچو کہ کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔
حیرانی تب ہوتی ہے جب ایسے لوگ بھی محض تنقید برائے تنقید میں ایسے ایسے کمنٹ کر دیتے ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے کہ خدایا یہ کس قوم سے واسطہ پڑا ہے جو تنقید بھی علمی نوعیت اور علمی شاہکار پر نہیں بلکہ شخصیت پر کرتے ہیں جس نے صرف ایک کتاب پڑھنے کی التجا کی،کہ ہو سکتا ہے اس کتاب کے پڑھنے کے بعد ہمیں ہمارا شاندار ماضی ہمارے سوئے ہوئے ضمیروں کو جگا دے۔ وہ جو اقبال نے کہا تھا کہ ؎
ہمیں اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاجِ سر دارا
اسی اقبال نے جب اپنے آبائواجداد کے علمی ذخائر کو یورپ کی لائبریریوں کے طاق میں پڑا دیکھا تو اس نے خون جگر سے
یہ شعر لکھے کہ ؎
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
ان دو اشعار میں فکرِ اقبال ہم مسلمانوں کے ضمیر کو ہی جگا رہی ہے کہ تم کیا تھے،تمہارا ماضی کیا شاندار ماضی تھا اور اب کیسے راندہ درگاہ ہو۔ حلم، علم، فلسفہ وحکمت تمہارا خاصہ تھا جو کہ اب یورپ کی لائبریریوں میں پڑا ضائع ہو رہا ہے۔اس علم کے امین تم مسلمان تھے نا کہ یورپ ۔مقام افسوس تو یہ ہے کہ تاحال ہم عقل سےعاری ہے،ماضی سے سبق نہیں سیکھ رہے۔جس کی تازہ ترین مثال وزیر اعظم کے دو بیانات ہیں کہ جس میں انہوں نے ایک تو ڈرامہ ارطغرل اور دوسرا مذکورہ کتاب کے پڑھنے کی تلقین کی ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ مخالفین محض اس لئے صف آرا ہو گئے ہیں کہ یہ بات وزیراعظم نے کی ہے۔اور بلا سوچے سمجھے بغیر کتاب پڑھے تنقید کے تیر ہر طرف سے برسانا شروع کر دئے ہیں۔یہ تو ایسے ہی ہے کہ جیسے کہ جج نے مشہور کاتب فرج فودہ کے قاتل سے پوچھا کہ تم نے اسے کیوں قتل کیا تو قاتل نے جواب دیا کہ وہ کافر تھا۔ جج نے پوچھا کہ اچھا تمہیں یہ کیسے پتہ چلا کہ وہ کافر تھا۔ …قاتل: اس کی کتابوں سے… جج: تم نے اس کی کون سی کتاب پڑھی ہے؟…قاتل: میں اس کی کتابیں نہیں پڑھتا…۔جج،کیوں؟۔۔۔۔قاتل: کیونکہ میں پڑھا لکھا نہیں ہوں!!!
موجودہ صورت حال میں بھی مجھے معاملہ کچھ ایسا ہی دکھائی دیتا ہے کہ بلا تحقیق مخالفین نے تنقید برائے تنقید کے نشتر چبھو نے شروع کر دئے،کیا ہی اچھا ہوتا کہ پہلے مخالفین کتاب کو پڑھتے،پھر اس پہ اور وزیراعظم کی سوچ پر تبصرہ کرتے۔ ہوسکتا ہےایسی تنقید کا عوام پرکچھ اثر بھی ہوتا ،لیکن ایسا نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جہاں مسلمانوں کا ماضی شاندار اور عظمت کا امین رہا ہے وہاں ہماری اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھی لبریز ہے کہ جسے ہم نہ چاہتے ہوئے بھی تاریخ کے صفحات سے مٹا نہیں سکتے۔کون نہیں جانتا کہ ہماری ہی تاریخ میں اقتدار کی خاطر باپ نے بیٹے،بھائی نے بھائی،بیوی نے خاوند بیٹے نے باپ کو قتل کروایا۔ کسی نے باپ کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا دیں،تو کسی نے سرتن سے جدا کروا دیا۔
باوجودیکہ ہمیں اپنے ماضی پہ فخر ہونا چاہئے کہ ہم نے دنیا پر حکمرانی کی ہے اور عدل وانصاف کا بول بالا بھی ہم نے ہی کیا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ ہمیں ڈراموں اور کتابوں کی صورت میں ہمیں ہمارے شاندار ماضی سے روشناس کروایا جائے تاکہ کتب بینی کا معدوم ہوتا ہوا شوق پھر سے زندہ ہو سکے یا پھر ڈرامائی تشکیل سے ہمیں اپنے ماضی کو جاننے کا موقع مل سکے۔کتاب چونکہ ریکارڈڈ تاریخ ہوتی ہے اس لئے ڈرامائی تشکیل کے ساتھ ساتھ کتاب کلچر کو بھی زندہ اسی صورت میں رکھا جا سکتا ہے جب کہ نوجوان نسل کو اس کی اہمیت سے آگاہ کیا جا سکے۔
کتب بینی کا شوق پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے نوجوان نسل کو ایسی کتابوں سے متعارف کروایا جائے جس میں ان کی دلچسپی ہو خاص کر ہماری تاریخ،کیونکہ والٹئیر کا کہنا ہے کہ : ’’دنیا پر ہمیشہ کتابوں کی حکمرانی رہی ہے ماسوا وحشی قوموں کے‘‘مخالفین سے میرا آخر میں ایک سوال ہے کہ کیا ہمیں اپنی آنے والی نسل کو کتب بینی کی اہمیت سے روشناس کروانا ہے یا انہیں وحشی قوم کی طرف جانے والے راستے پہ چلنے کی حوصلہ افزائی کرنی ہے؟