بیت المقدس عیسائیوں کے لئے مذہبی لحاظ سے ایک متبرک مقام تھا، جہاں وہ اپنی مذہبی رسومات بالکل خود مختاری سے ادا کیا کرتے تھے۔بعد میں فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد مبارک میں اسلامی فوجوں نے بیت المقدس کو فتح کرلیا تھا،جو پانچویں صدی ہجری تک مسلمانوں کے زیر تسلط رہا؛جس دوران مسلمانوں نے عیسائیوں کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی دی،ان کے ساتھ نہایت رواداری کا سلوک بھی جاری رکھا۔
ان کو مکمل طور آزادنہ حرکت و نقل کی اجازت تھی۔وہ بین الاقوامی خط و کتابت کر سکتے تھے اور ان کے لئے بڑے بڑے سرکاری عہدے بھی دستیاب تھے۔اگر مسلمان عیسائیوں کے مختلف فرقوں میں امن و امان قائم نہ رکھتے،تو یقینا وہ آپس میں ہی ایک دوسرے کا خون بہادیتے۔یوں بیت المقدس کئی سال مسلمانوں کے زیر انتظام رہا۔اس کے بعد پہلی صلیبی جنگ ہوئی اور یوں سنہ 488ھ میں عیسائی دنیا نے بیت المقدس کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
کچھ عرصہ بیت المقدس عیسائیوں کے قبضے میں رہا، بعد میں مرد مجاہد صلاح الدین ایوبی کے کی قیادت میں بغیر خون بہائے مسلمانوں نے عیسائیوں سے بیت المقدس واپس لے لیا۔اس کے بعد سے بیت المقدس مسلمانوں کے زیر انتظام رہا ہے، یہ بات عیسائی اور بالخصوص یہودیوں کو ہضم نہیں ہو پا رہی ہے۔یوں وہ بیت المقدس واپس لینے کے لیے بے پناہ کوششیں کر رہے ہیں۔
بالآخر سنہ 1948ء میں عیسائی و یہودی گٹھ جوڑ اپنی سازشوں میں کامیاب ہوا اور اسرائیل کا قیام وجود میں آیا۔آج فلسطین میں قیام اسرائیل کے 72 برس مکمل ہوچکے ہیں۔رپورٹ کے مطابق قیام اسرائیل کے سات عشروں کے بعد بھی 1 کروڑ 30 لاکھ فلسطینی ہجرت کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں،انہیں اپنےہی وطن میں واپسی کا حق نہیں ہے۔
سنہ 1948ء میں ارض فلسطین میں صہیونی ریاست کےقیام کےبعد 12.4 ملین فلسطینی ہجرت کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں،سنہ 1948ء میں اپنے گھر بار چھوڑنے والے فلسطینیوں کی تعداد میں اب 10 گنا سے زائد کا اضافہ ہوچکا ہے۔ بے گھر ہونے والے فلسطینی میں دوسرے ملکوں میں پناہ گزین کی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ ایک بڑی تعداد بیت المقدس، غرب اردن اور غزہ کی پٹی میں مہاجر کیمپوں میں رہتی ہے۔
اقوام متحدہ کی قراردادکےمطابق برطانوی فوج کو مئی 1948ء تک علاقے کی نگرانی کرنی تھی جبکہ برطانوی فوج نے اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کردیا تھا، عربوں نے الزام لگایا کہ جاتے ہوئے برطانوی فوجی اپنا اسلحہ اسرائیلیوں کےحوالے کر گئی ،برطانوی فوج کی واپسی سے ایک ماہ پہلے 5 اپریل 1948ء کو اسرائیلی فوج یروشلم میں داخل ہوئی ، معاہدے کے تحت بیت المقدس میں فوج تو دور کی بات، کسی شخص کو اسلحہ لے کر جانے کی اجازت بھی نہ تھی۔
فلسطینیوں نے بیت المقدس میں مسلح اسرائیلیوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن جدید اسلحہ سے لیس اسرائیلیوں نے اس مزاحمت کو کچل دیا۔ اس تصادم میں سینکڑوں فلسطینی شہید ہوئے۔ برطانیہ کی واپسی کے ساتھ ہی یہودی رہنما ڈیوڈ بن گوریان نے(اسرائیل )کے نام سے ملک کےقیام کا اعلان کیاجسے امریکا،روس نے فوری طور پر تسلیم کیا۔ اُس وقت ہیری ٹرومن امریکا کے صدر اور مشہور کمیونسٹ رہنما جوزف اسٹالن روس کےسربراہ تھے۔
اسرائیلی فوج نے جدید اسلحے کے زور پر فلسطینیوں کے مظاہروں کو کچل دیا جس کے بعد اسرائیلی فوج نے فلسطینی بستیوں کو گھیرا اور7 لاکھ فلسطینیوں کوغزہ کی طرف دھکیل دیا گیا، قبضے کی اس مہم میں فلسطینیوں سے مجموعی طور پر 2000 ایکڑ اراضی چھینی گئی، فلسطینیوں کا جبری اخراج 15 مئی 1948ء کو مکمل ہوا جسے فلسطینی ’’یوم النکبہ‘‘ یا بڑی تباہی کا دن کہتے ہیں۔
یاد رہےکہ فلسطین میں 10 ہزار یہودی اور 8 لاکھ 18 ہزار عرب آباد تھے جبکہ بیت المقدس کی آبادی 1 لاکھ تھی جہاں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی تعداد تقریباً برابر تھی۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ظالموں سے ہمارے فلسطین کی حفاظت فرمائے۔