سازشوں کا تعلق صرف ایوان اقتدار سے نہیں ہے ، یہ عبادت گاہوں میں رہتی ہیں ، یہ درسگاہوں میں رہتی ہیں ، یہ دفتروں میں رہتی ہیں ، یہ ہسپتالوں میں رہتی ہیں ، یہ چھوٹے بڑے ہر طرح کے گھروں میں رہتی ہیں ، غرض یہ کہ جہاں انسان وہاں سازش ۔ جانے انجانے ترتیب پانے والے حالات سازش کی صورت اختیار کر لیتے ہیں ۔ سازشیں کسی خاص مذہب یا خطے سے تعلق نہیں رکھتیں یہ ہر جگہ موجود ہوتی ہیں اور ان دیکھی تخریب کاری کا سبب بنتی رہتی ہیں ۔ بادشاہوں کو فقیر بنادیتی ہیں اور فقیروں کو بادشاہ ،یہ سازشیں ہی اپنوں کو اپنوں سے لڑوا دیتی ہیں بلکہ موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہیں۔
انسانوں کی ترجیحات وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی ہیں اور یہ ترجیحات اپنی سہولیات سے منسلک ہوتی یا پھر ہمارے مفادات ہماری ترجیحات کا تعین کرتے ہیں ۔ ساری دنیا تقریباً پچھلے تین ماہ سے انتہائی تذبذب کا شکار ہے اور کیا ہے اور کیا نہیں ہے کے کالے سمندر میں غوطہ زن ہے ۔ چین کے حالات و واقعات ساری دنیا نے شائد بہت غور سے یا سنجیدگی سے نہیں لئے لیکن چین نے ایک بار پھر قوم ہونے کا ثبوت پیش کیا اور ایک نا دیکھائی دینے والی وباء سے خوش اسلوبی سے نجات حاصل کر لی ۔ یہ وباء دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا میں پھیل گئی یہ لکھا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ اس وباء نے ساری دنیا کو چشمِ زدن میں اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ پھر کیا ہوا لاشوں کے انبار لگنا شروع ہوگئے دنیا کے وہ ممالک جو طبی سہولیات کے ماہر مانے جاتے تھے وہ سب سے زیادہ متاثر ہونے لگے، اموات کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ۔ یہ وباء کسی آفت کی شکل اختیار کر چکی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ دنیا نے ابھی تک کائناتوں کے خالق کی قدرت کا اعتراف نہیں کیا ہے ۔
ایک طرف چین اور امریکہ کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہوگیا ہے ، سماجی ذرائع ابلاغ کیمطابق امریکہ میں مقیم ایک چین سے تعلق رکھنے والے پروفیسر بنگ لیو کو انکی رہائشگاہ میں مردہ حالت میں پایا گیا، ابتدائی اطلاعات کیمطابق اسے قتل کہا جا رہا ہے جسکی بنیادی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ وہ کووڈ ۹۱ پر تحقیق کر رہے تھے۔ یہ قتل کسی بہت بڑی سازش کی وجہ بھی ہوسکتا ہے اور یہ قتل مذکورہ سرد جنگ کو کہیں آگ اور خون کی جنگ میں تبدیل نا کردے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چین اس قتل کو کس طرح سے دیکھتا ہے اور اس پر اپنا کیا رد عمل دنیا کے سامنے رکھتا ہے ۔ جیسا کہ دنیا ابھی دور دور تک سنبھلتی دیکھائی نہیں دے رہی اور نا ہی خدائے بزرگ و برتر کی قدرت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کو تیار دیکھائی دے رہی ہے ۔ کیا سازشیں قدرت کا رخ موڑدینے کیلئے کی جارہی ہیں یا پھر اسی زعم کا نتیجہ ہے کہ ہمارا کون کیا بگاڑ سکتا ہے ۔
قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے ان قوموں کو کہ جنہیں صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دیا گیا جن میں حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت لوط علیہ السلام، حضرت صالح علیہ السلام اور حضرت ثمود علیہ السلام کی قو میں قابل ذکر ہیں ، ہر قوم کسی مخصوص گناہ کی مرتکب ہوئی اور اسکی حدوں کو چھونے کیساتھ ساتھ اللہ کے نبیوں کو بھی نا صرف جھٹلاتے رہے بلکہ ان کے ساتھ تمسخر کرتے رہے ۔ رمضان کے دن ہیں ذراءع ابلاغ پر قرآن کریم کی تلاوت و ترجمہ پیش کیا جا رہاہے یہاں اے آر وائی والے اس کام میں سب سے سبقت لے جا چکے ہیں انہوں نے ذرائع ابلاغ کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے پہلی دفعہ براہ راست دورہ ترجمہ قرآن پیش کرنے کی سعادت حاصل کر لی ہے ، جو کہ انتہائی قابل ستائش اقدام ہے ۔ واپس آتے ہیں قرآن میں بتائے گئے اعمال کے حوالے سے کہ جن کی وجہ سے اقوام اپنا آپ گنوا بیٹھیں ۔ ان تمام رونما ہونے والے واقعات کا بغور مطالعہ کیجئے اور قوموں کا سرپھرا پن دیکھئے تو یقینا اہل نظر کی روحیں کانپ جائینگی کیونکہ آج دنیا میں ہر ہر وہ کام راءج ہے جو قوموں کی بربادی کا سبب بنا ۔ ہم جنس پرستی ، ناپ تول میں کمی، طاقتور اور کمزور کیلئے مختلف قوانین ، اور سب سے بڑھ کر ناماننے کی خصلت آج عام ہیں ۔
تاریخ گواہ ہے کہ سازشیں ہر دور میں اکھاڑ پچھاڑ کا سبب بنتی رہی ہیں ۔ کون بھلائی کر رہا ہے اور کون برائی یہ جاننا بہت مشکل کا م ہے ۔ دنیا جہاں پر ایک واجبی تبصرہ مندرجہ بالا سطور میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اب آجائیں اپنے وطن عزیز پاکستان میں یہاں سیاستدانوں کا راج ہے اور یہی سیاستدان ، قانون دان بھی ہیں ، جاگیردار بھی ہیں ، تعمیرات کے مالک بھی ہیں ، صنعت کار بھی ہیں ، ذرائع آمد و رفت بھی انہی کے دم سے ہے غرض یہ کہ ہر کاروبار انہیں کے گھروں سے شروع ہوتا ہے اور انہیں کہ گھروں میں ختم ہوجاتا ہے ۔ دنیا نے کرونا وائرس کی وجہ سے سب کچھ بند کردیا اور مہینوں سے بند ہے ، حکومتی اور مخالفتی ذراءع ایک زبان ہیں لیکن پاکستان میں تو ایک ادنی سے سرکاری ملازم سے بات کر کے دیکھ لیں اسکی تمام تر گفتگو کسی نا کسی کی مخالفت میں ہی ہوگی اور ہر شہری کئے گئے اقدامات پر نا خوش دیکھائی دے رہاہے۔
کچھ وقت کیلئے ملک میں کرونا کا خوف رہا لوگوں نے کسی حد تک احتیاطیں بھی کیں لیکن جیسا کہ بارہا کہا جاچکا ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو ایک جیسی کیفیت سے بہت جلدی اوب جاتے ہیں اور کیفیت کی تبدیلی کیلئے کوششیں کرنا شروع کردیتے ہیں اور کسی کی ماننا تو ہمارے لئے ہے ہی نہیں ہاں اگر ڈنڈا حرکت میں آجائے تو پھر اور بات ہے ۔ جیسا کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ اموات کا سلسلہ رکا نہیں ہے یہاں تک کے ہمارے طبیب بھی کرونا وائرس کی وجہ سے اپنی زندگیاں ہار رہے ہیں ۔ مختلف مکتبہ فکر مختلف طرح سے اس صورتحال کو دیکھ رہے ہیں ، بعض کا خیال ہے کہ یہ کوئی بہت بڑی بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے ، بعض کا کہنا ہے کہ صوبہ سندھ اور وفاق کے درمیان تصادم کی راہ ہے اور ایک مکتبہ فکر وہ ہے جو حالات کی نزاکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منافع خوری کرنے میں مصروف عمل ہوچکے ہیں۔ عوام کیا کرے اور کیا نا کرے کوئی حتمی طور پر سمجھانے کیلئے تیار نہیں ہے اور بھلا سمجھا بھی کیسے سکتا ہے۔ یہ تذبذب کی کیفیت کہاں تک چلنے والی ہے کسی کو کچھ نہیں پتہ ہے ۔
جس بات پر دھیان جیسے ٹھہر سا گیا ہے کہ کہیں دنیا نے قدرت کو اپنے اوپر عذاب کی دعوت تو نہیں دیدی ہے جو کہ یہ لوگ اس سنگین صورتحال میں سنجیدہ ہی نہیں ہورہے ۔ کشمیر میں ظلم و ستم ویسے ہی جاری ہے، فلسطین اپنی بقاء کی جنگ میں برسر پیکار ہے ، شام کی صورتحال میں بھی کوئی خاص فرق نہیں دیکھایا جا رہاتو بھلا پھر اس کرونا نامی وائرس سے کیسے نجات حاصل کی جاسکے گی ۔ پہلے زمانوں میں قربانیاں دی جاتی تھیں اور قربانی کی قبولیت کیساتھ معافی ہوجاتی تھی ، لیکن اب تو کوئی غلطی ماننے کیلئے ہی تیار نہیں ہوتا ۔ بس اتنا ہی سمجھ آرہا ہے کہ ہم سب کسی کرونا نامی وائرس کی بجائے کسی بین الاقوامی سازش کی زد میں ہیں کہ ہم سب ایک دوسرے منہ چھپائے پھر رہے ہیں لیکن اپنے خالق سے پکا رابطہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔