عالمی سطح پر اس وقت نوول کوروناوائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد انتیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ اموات بھی دو لاکھ سے بڑھ چکی ہیں۔دنیا کے سبھی آباد خطوں میں وبا کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور عالمی سطح پر معیشت اور سماج دونوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ایسے میں نوول کورونا وائرس کے ابتدائی مرکز ووہان سے ایک خوش آئند خبر سامنے آئی کہ تین ماہ سے زائد کی مسلسل جدوجہد کے بعد بلاآخر اس شہر کو کورونا وائرس سے مکمل طور پر پاک کر دیا گیا ہے۔اتوار کے روز وائرس سے متاثرہ آخری مریض بھی صحت یابی کے بعد اسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق چین میں متاثرہ مریضوں کی تعداد بیاسی ہزار سے زائد ہے جن میں سے ترانوے فیصد سے زائد صحت یاب ہو چکے ہیں۔ ووہان سے نوول کورونا وائرس کا خاتمہ یقینی طور پر انسداد وبا کی کوششوں کا ایک اہم تاریخی سنگ میل ہے۔ووہان شہر کے باسیوں کی صبر آزما جدوجہد نے عالمی سطح پر بھی انتہائی پزیرائی حاصل کی ہے۔وبا کی روک تھام کی خاطر چینی قیادت نے تیئیس جنوری کو ووہان شہر لاک ڈاون کر دیا تھا۔اس دوران یہ کوشش کی گئی کہ صحت عامہ اور انسانی جانوں کے تحفظ کی خاطر مریضوں کی فوری تشخیص سمیت انہیں اسپتالوں میں علاج معالجے کی تمام تر سہولیات فراہم کی جائیں۔ شہر میں سولہ عارضی اسپتال قائم کیے گئے اور ساٹھ ہزار مریضوں کی گنجائش کے حامل طبی ادارے فوری فعال کیے گئے تاکہ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر طبی عملہ اور طبی نظام کسی دباو کا شکار نہ ہو۔
چین بھر سے طبی عملے کو متحرک کیا گیا اور قافلے کے قافلے ووہان اور صوبہ حوبے پہنچ گئے۔ بیالیس ہزار سے زائد طبی عملے نے اپنے فرائض احسن انداز سے سرانجام دیے اور فتح اُن کا مقدر ٹھہری۔چین کے مختلف صوبوں سے ووہان شہر اور صوبہ حوبے کو طبی سازوسامان بشمول وینٹیلیٹرز ،حفاظی ملبوسات، ماسکس اور ضروریات زندگی کی دیگر تمام اشیاء باہم پہنچائی گئیں۔اس جدوجہد کے ثمرات اٹھارہ فروری سے سامنے آنا شروع ہوئے جب شہر میں نئے مریضوں کی تعداد میں کمی آنے لگی۔ووہان میں مجموعی طور پر مصدقہ مریضوں کی تعداد 50,333رہی ہے جبکہ اموات کی تعداد 3,869ہے۔ مریضوں میں صحت یابی کا مجموعی تناسب بانوے فیصد سے زائد رہا ۔
ووہان کے علاوہ صوبے حوبے میں گزشتہ بیس روز سے ایک بھی نیا کیس سامنے نہیں آیا ہے جبکہ مریضوں کی مجموعی تعداد پچاس سے نیچے آ چکی ہے۔ ووہان میں معمولات زندگی بحال ہو رہے ہیں۔اہم صنعتی اداروں کی پیداواری سرگرمیاں بحال ہو چکی ہیں۔جلد ہی تمام تعلیمی ادارے بھی کھول دیے جائیں گے اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ صوبے بھر میں ہائی اسکول کے طلباء چھ مئی سے اپنی تدریسی سرگرمیوں کا باضابطہ آغاز کر دیں گے۔حکام کی جانب سے اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ ووہان شہر میں وبا کی روک تھام و کنٹرول میں امپورٹڈ کیسز پر نظر رکھی جائے اور تمام تر احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔یہی وجہ ہے کہ چینی حکام کی جانب سے ابھی تک حتمی فتح کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
چینی حکومت کی جانب سے انسداد وبا کی بہتر صورتحال کے بعد ووہان میں جاری 76روزہ لاک ڈاون کا آٹھ اپریل سے خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ووہان شہر میں پاکستانی طلباء سمیت دیگر ممالک کے طلباء کی ایک کثیر تعداد بھی موجود ہے جو معمولات زندگی کی بحالی پر انتہائی مسرور ہے۔اکثر پاکستانی طلباء وبائی صورتحال کے آغاز میں قدرے بے چین تھے اور اُن کی یہی خواہش تھی کہ جلد ازجلد اپنے ملک پاکستان انہیں پہنچایا جائے مگر بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ حکومت پاکستان کے دانشمندانہ فیصلے اورطلباء کی قربانیوں کے بہتر ثمرات سامنے آئے ہیں۔
چینی حکومت کے لیے ووہان کا لاک ڈاون کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا مگر اس کا واحد مقصد لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ تھا۔لاک ڈاون کے بعد ووہان کے شہریوں نے خود کو اپنے گھروں تک محدود کر لیا،طلباء کی ساری سرگرمیاں بھی صرف اپنے ہوسٹل کے کمروں تک رہ گئیں ، ہر قسم کی پبلک ٹرانسپورٹ معطل ہو گئی اور اس دوران کسی کو شہر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔سب کے لیے ماسک کی پابندی لازمی قرار دی گئی۔ یقیناً یہ ایک مشکل صورتحال تھی لیکن بعد میں یہی کامیاب ماڈل دنیا بھر میں انسداد وبا کے لیے ایک نمونہ قرار دیا گیا اور آج بھی دنیا اسی پر عمل پیرا ہے۔ماسک کی ہی اگر بات کی جائے تو اب بھی ووہان سمیت چین کے دیگر شہروں میں گھر سے باہر نکلتے وقت ماسک پہننا لازم ہے بلکہ اب تو اگر کسی نے ماسک نہ پہنا ہو تو وہ عجیب لگتا ہے ۔اسے آگاہی بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ دوسروں کی زندگیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اپنا انفرادی کردار ادا کیا جائے۔
انسداد وبا میں اگر چین کے کامیاب ماڈل کو دیکھا جائے تو اس میں معیشت کے بجائے انسانی زندگی کا تحفظ زیادہ نمایاں رہا ہے۔چین کو ملک بھر میں صنعتی اداروں کی بندش سے بھاری معاشی قیمت تو چکانا پڑی لیکن قیمتی جانوں کو بچانے میں چین واقعی کامیاب رہا ہے۔ووہان کی ہی اگر بات کریں تو یہاں 3600 سے زائد مریض ایسے تھے جن کی اوسط عمریں 80 سال سے زیادہ تھیں اور صحت یاب ہونے والے سات مریض ایسے بھی ہیں جن کی عمریں 100 سال سے زائد ہیں جو بلاشبہ دیگر دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔چین کی جانب سے اپنائے جانے والے موئثر طریقہ علاج سے بھی حوصلہ افزاء نتائج سامنے آئے۔ ووہان کے عارضی اسپتالوں میں ہلکی علامات والے مریضوں کو روایتی چینی طب کے تحت علاج فراہم کیا گیا جبکہ مغربی طریقہ علاج اور روایتی چینی طب کے امتزاج سے بھی مریضوں کی جلد صحت یابی میں نمایاں پیش رفت ہوئی۔
ان سب عوامل کے پیچھے سب سے بڑی طاقت عوامی رویے رہے ،ووہان کے شہریوں نے حکومتی احکامات کی تابعداری کرتے ہوئے تمام دنیا کے لیے نظم و ضبط کی ایک بہترین مثال قائم کی اور دنیا کو دکھا دیا کہ چینی عوام اپنی قیادت کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے ہمیشہ تیار ہے۔عالمگیر وبا کے انسداد کے لیے یہی وہ منظم طرزعمل ہے جس کی دنیا کو اشد ضرورت ہے۔تاریخ میں ووہان شہر کانام یقینی طور پر سنہرے حروف میں لکھا جائے گا کہ کیسے اس شہر نے ایک قلیل مدت میں مہلک وبا کو شکست دی اور انسانیت کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کیا۔