آج اس پرفتن دورمیں جذبہ ایمانی سےایک تابندہ تارہ بھرپور طریقے سےابھر رہا ہےاور وہ ہے ماضی کے قائی قبیلےکا ارطغرل ۔۔۔!کس قدر فخر اور شان و شوکت کے ساتھ اس “ماضی کےغازی” کو آج کی دنیا میں مسلمانوں کے رگ و پے میں بسایا جارہا ہے۔ اور طاغوت اس سب کو دیکھ کراپنی موت کو قریب سے قریب ترمحسوس کررہاہے ۔ یہ کیسا کردار ہے جس کو دیکھنے والا ہر شخص دیوانہ ہوجاتا ہے الجہاد الجہاد کرنے لگتا ہے۔۔۔۔۔۔ اپنی میان میں ننگی تلوار محسوس کرنے لگتا ہے ۔۔۔بڑے تو ایک طرف اس امت کے چھوٹے چھوٹے بچے تک اس سحر کا شکار ہو چکے ہیں۔
غرض یہ ڈرامہ نوجواں مسلم کو جگانے کا بہترین ذریعہ بنا ہے لیکن ۔۔اس کے پیچھے ترکوں کا اصل مقصد کیا ہے ؟ آج جہاں سارے دجالی فتنے سر اٹھارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔اس وقت اس ڈرامے کی پزیرائی ، ایک عجیب بات نہیں؟آج جب اس ڈرامے کے حرام ہونے کے فتوے نکالے جارہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس وقت حکومت نے اس کی تشہیر اپنی سطح سے کر دی ۔۔۔۔ کیا یہ بات کھٹکنے والی نہیں؟کیا اس ڈرامے کے ذریعے مسلمانوں کو کسی خاص مقصد کے تحت تیار نہیں کیا جارہا؟یہ ہمارے لیے لمحہء فکریہ ہے۔۔۔۔!
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو جسکا ہے ایک ٹوٹاہوا تارا
جس جس نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہو گا تو وہ اس نہج پر آسانی سے اپنے فکری پہاڑ کھڑے کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پہلی بات ! یہ ارطغرل کون ہے ؟؟یہ سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھنے والے پہلے سلطان عثمان خان کے والد ماجد تھے جنہوں نے اپنے دور میں صلیبیوں کے قلعوں پر ، منگولوں کے بازاروں میں ، بازطینیوں کے محلوں میں اسلام کا پر چم سر بلند کیا تھا۔ ساتھ ہی ان کی نسل سے سلطان محمد فاتح نکلے جس نے قسطنطنیہ فتح کیا تھا۔۔۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان عثمانی ترکوں سے بڑھ کر سچے عاشق رسولؐ نہ تھا ۔۔۔۔۔!
اپنی امت کے نبی کے نام اقدسﷺ سن کر دل پر ہاتھ رکھ لینے والے چرواہوں کے قبیلے کےبہادروں کے مختصر سے تعارف کے بعد کیا ہم اس سوال کو بھی مد نظر نہیں رکھ سکتے کہ کہیں یہ خلافت عثمانیہ کی نشاۃ ثانیہ کے مظاہر تو نہیں ۔۔۔!بالکل! یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ترکی اس وبا کے دور میں جتنا خاموش ہے اس سے معاملات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور اس خاموشی کوبھی اس نہج پر پرکھا جاسکتا ہے۔آئیے اب ذرا عالم اسلام خصوصاََ ترکی کے حالات کا جائزہ لیتے ہین۔۔۔۔۔۔
1923ء میں جب ترک خلافت کا خاتمہ ہوا اور پھرجنگ عظیم اول۔۔۔۔ اس کے بعد اتاترک پاشا کے ساتھ مغربی اقوام نے ایک سوسالہ معاہدہ کیا جس کی تمام شقیں مسلمانوں کے خلاف تھیں ، جوکہ کچھ یوں تھیں۔۔۔ پوری ترک سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا …… سیکولر ریاست قائم کردی گئی ۔۔۔ لباس بدل دیا گیا۔۔۔ عثمانیوں کا مخصوص عربی رسم الخط ختم کرکے انگریزی حروف پر متشتمل رسم الخط دے دیا گیا۔۔۔ کچھ مساجد کو چرچ میں تبدیل کیا گیا ۔۔۔ جن میں آیا صوفیہ سر فہرست ہے۔۔۔اور سب سے بڑھ کر ۔۔ ترک قوم کو سو سال کے لیے غلام بنا دیا گیا جس سے ان کی اپنی کوئی معاشی حیثیت نہیں رہی اور مغرب کے رحم و کرم پر رہ گیا۔۔۔!
اگر عثمانیون پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
آج سے ٹھیک تین سال بعد یہ معاہدہ انشا اللہ ختم ہونے جارہا ہے جس کی تیاری کے لیے ارطغرل جیسے جری بہادروں کے ڈرامے بنائے جارہے۔۔۔ اردوان اس خاموش وبا کے عرصے میں یقیناََ اس کی تیاری کررہے اور پوری امت مسملہ کے دلوں میں فاتح القدس صلاح الدین ایوبی جیسی حیثیت رکھے ہوئے ہیں۔۔۔ایسے میں اردوان کا دوسری دفعہ صدر بننا بھی اسی بات کی دلیل ہے ۔۔ مغرب اب اس بات پر منہ میں انگلیاں لیے بیٹھا ہے کہ اب یہ شخص وہ ساری زمین واپس لے لے گا جو کھبی سلطنت عثمانیہ کے نام سے جانی جاتی تھی ۔ اب ان طاغوتوں کو القدس یعنی کے مسجد القصیٰ ، عراق ، شام ، مکہ ، مدینہ سب کچھ دینا پڑے گا ۔۔۔۔! اللہ اردوان کی حفاظت کرے۔
جس ترکی کو ان کافروں نے ایک چھوٹے سے خطے پر محیط کر دیا تھا وہ انشا اللہ بہت جلد واپس لیا جائے گا ۔۔۔۔ اقبال نے کیا خوب کہا: ؎ ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے طمانچے موج کے کھاتے تھے جو بن کر گوہر نکلے
صحیح معنوں میں یہ امت مسلمہ کا دور ہو گا اور پھر قیامت کے آثار اور زیادہ نمایاں ہو جائیں گے۔ الغرض کہ چھوٹے چھوٹے پانی نظر آتے بڑے بڑے دجالی فتنوں سے دور رہنے کا دور ہے ۔۔۔دعا ہے یہ کڑا وقت امت پر آسانی سے گزر جائے۔۔۔ آمین
ماشاءاللہ بہترین لکھا ہے۔۔بات کو واضح طور پہ بیان کیا گیا پے اور اصل مقصود کی طرف توجہ دلائی ہے