علمائے دین اسلام اوردرباری علما میں بہت فرق ہوتاہے اتنا فرق کہ جس کی مثال زمین وآسمان کے فرق سے بھی نہیں دی جاسکتی علمائے دین حق ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں جبکہ درباری علما دنیاوی شہرت،عہدے یامال ودولت کے سامنے سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ پیرکے روز روزنامہ جنگ میں محترم حامدمیر کا (علمائے دین اورحکمرانوں کے دربار) ایک شاندارکالم پڑھنے کااتفاق ہوا جس میں انہوں انتہائی باریک بینی کے ساتھ تاریخ کے سنہری اوراق سے انتہائی مضبوط دلائل کی روشنی میں یہ بات ثابت کردی کہ علماء دین حق نے کبھی کسی بھی حال میں اہل اقتداریعنی باطل حاکمین یاامراء جنہیں غیراللہ کہاجائے توزیادہ مناسب ہوگاکی کوئی ایسی بات تسلیم کی نہ اُن کی کسی ایسی خواہش کے سامنے سرتسلیم خم کیاجواللہ تعالیٰ اوررسول اللہ ؐ کے احکامات کے مخالف تھیں۔
نہ ہی ایسے حاکمین کے دربارمیں باادب حاضریاں دیں جس سے حاکمین اپنے غلط ملط عقائد پرعلماء کی حمایت حاصل ہونے کا تاثر بناسکتے۔ حامدمیرنے اپنے کالم میں لکھاکہ امام حضرت ابوحنیفہ ؒ کوحاکم وقت ابو جعفرعبداللہ بن محمد المنصور نے جیل میں قید کردیا جہاں اُن پرتشددبھی کیاجاتا، امام حضرت ابوحنیفہؒ نے قیدوبند اورتشددکے باوجود یہاں تک کہ قیدمیں وفات پاگئے، پر باطل حکمران کی ایسی کسی خواہش کی حمایت نہیں کی جواللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف تھیں اسی طرح امام حضرت مالک بن انسؒ ،امام حضرت احمد بن حنبلؒ،امام حضرت شافعیؒ،امام حضرت موسیٰ کاظمؒ،امام حضرت مالکؒ، عبدالرحیم محدث دہلوی ؒسے مجدد الف ثانی ؒتک حوالے دیتے ہوئے بڑی خوبصورتی کے ساتھ یہ ثابت کردیاکہ علماء کرام حکمرانوں کی نہیں اللہ تعالیٰ اوررسول اللہ ﷺ کی خوشنودی کوترجیح دیتے ہیں چاہے انہیں کوڑے کھانے پڑیں، جیل جاناپڑے چاہے شہید کردئیے جائیں۔
یوں توحامدمیرصاحب کے کالم میں کوئی کمی نظرنہیں آئی پرکیاہی اچھاہوتاجوبات انبیاء کرام سے شروع ہوتی ہاتھی والوں کا ذکر کیا جاتا30ہزارسے زائدبچے قتل کرنے والے فرعون کاقصہ بربادی سنایاہوتا،حضرت یوسف علیہ سلام کے بھائیوں کے ظلم ستم، پھر مصر کے بت پرستوں کی سازشوں اورحضرت یوسف علیہ السلام کی قیدوبند کا تذکرہ کیاجاتا۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد سرکاردوعالم رحمت العالمینؐ کی بات کی ہوتی، نبی کریم کے غلام حضرت بلال حبشیؓ پرہونے والے ظلم وجبرکاتذکرہ چھیڑاہوتااورسب سے بڑھ کر نواسہ رسول اللہ ؐحضرت مولاعلی المرتضی ؓ علیہ سلام کے شہزادوں کی مقام کربلاپرشہادت یاد آجاتی جس کی کائنات میں دوسری مثال ہوئی نہ ہوگی ،کے حوالے بھی پیش کر دیتے توتحریرکوچارنہیں اربوں کھربوں چاندلگ جاتے۔
اس بات سے انکارکسی صورت ممکن نہیں کہ علماء دین حق کسی غیراللہ کے دربارمیں حاضریاں نہیں دیاکرتے اوریہ اس کائنات کی عظیم حقیقت ہے کہ اہل علم ودانش دنیاکے کسی جابرحاکم کےغلط ملط عقائدکوہمیشہ ردکرتے اورظلم وستم سہتے آئے ہیں پرجناب عالی صحافت بھی توکلمہ حق اداکرنے کانام ہے صحافت بھی توپیغمبری صفت ہے جس طرح علماء کرام پرلازم ہے کہ وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں قوم کی رہنمائی کریں خوداللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول میں سختیاں برداشت کریں اورقوم کی تربیت بھی انہیں بنیادوں پرکریں اسی طرح اہل صحافت کابھی اہل اقتدارکے درباروں میں حاضری دینااوراپنی صحافت کو اپنے دین ،ملک وقوم کے مفادات کی بجائے کسی سیاستدان تاجر یاحاکم کے ایجنڈے کوفروغ دینے کیلئے استعمال کرنابھی توبالکل اسی طرح غلط اورجرم ہے جس طرح کسی عالم کااللہ تعالیٰ کی بجائے کسی دنیاوی حاکم کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔
مولاناطارق جمیل قابل احترام بزرگ عالم ہیں جب وہ سود،زنا،غیبت،جھوٹ،بے ایمانی،چوری چکاری کیخلاف بات کرتے ہیں جب وہ خواتین کے حق وراثت کی ادائیگی کی تلقین کرتے ہیں تودلی خوشی ہوتی ہے،مولانانے وزیراعظم کے ٹیلی تھون پروگرام میں جھوٹ سے نجات کی دُعاکی خاص طورپرمیڈیاکے حوالے سے یامزیدجتنی بھی دُعائیں کی راقم سب پرآمین کہتاہے پرکیاہی اچھاہوتاکہ مولانا حاکم وقت کی مداح سرائی یا خوشآمدنہ کرتے توقوم ان کے لفظ لفظ کے ساتھ کھڑی ہوجاتی مولانانے اس حاکم کی خوشآمد کی جس کے قول و فعل کاتضاد طویل سے طویل ترہوتاجاتاہے مولاناصاحب سے گزارش ہے وہ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ قول و فعل کے تضاد کو جھوٹ تصورکیاجاناچاہیے کہ نہیں؟
مولانانے اینکرز کوجھوٹا چینلز کو جھوٹا کہہ کرجھوٹ سے نجات کی دُعاکی جس پرآمین پریہ بھی یاد رہے کہ سب اینکریاسب صحافی جھوٹے نہیں ہاں یہ حقیقت ہے کہ سچ بولنے والوں کی تعداد بہت قلیل ہے۔ مولانانے بغیرکوئی دلیل پیش کیے معذرت کرکے احسن مثال قائم کی ہے جس پر اُن کیلئے خراج تحسین بنتاہے، مولانانے فرمایاکہ’’ وزنراعظم کو اُجڑاچمن ملا‘‘مان لیاکہ وزیراعظم عمران خان کو اُجڑاچمن ملا جسے وہ صدق دل سے آبادکرنے کی کوشش کررہے ہیں توپھرمولاناہماری ایک بارپھررہنمائی فرمائیں کہ یہ چمن کس نے یاکس کس نے اجاڑا؟ماضی کے حکمرانوں نے اجاڑاتوپھرمولاناایک بارپھرہماری رہنمائی فرمائیں کہ مولاناتوماضی کے حکمرانوں سے اسی طرح ملاکرتے تھے اسی طرح دُعاکیاکرتے تھے جس طرح حاکم وقت سے ملتے ہیں دُعائیں کرتے ہیں۔
محترم مولاناصاحب ہماری رہنمائی فرمائیں کہ اگلی حکومت پھرسے چمن اجاڑنے والوں کی بن جائے تو کیا مولانا ایک بار پھر چمن اجاڑنے والوں سے ماضی کی طرح ملاکریں گے؟اسی طرح اُن کے حق میں بھی دُعاکیاکریں گے اوریہ بھی کہ درباری علما اورعلمائے دین حق میں کیافرق ہوتاہے؟حامدمیرصاحب کی خدمت میں عرض کرناچاہتاہوں کہ بے شک علمائے دین کواہل دنیا یعنی دین اسلام کی تعلیمات سے غافل حکمرانوں کے دربارسے کوئی غرض نہیں ہوتی اورجن کادل ایسے حکمرانوں کے دربارسے باہرنہیں لگتاوہ علمائے دین نہیں درباری علما ہوتے ہیں جوہردورمیں پائے جاتے ہیںجس طرح کہ امام حضرت ابوحنیفہ ؒ کے شاگردنے فوری چیف جسٹس کا عہدہ قبول کرلیا یعنی امام حضرت ابوحنیفہ ؒ عالم دین حق اوراُن کاشاگردابویوسف درباری عالم تھے۔
آخرمیں محترم حامدمیرصاحب اورمیڈیاسے تعلق رکھنے والے تمام معززصحافیوں سے سوال کہ کیاآج میڈیاحاکم وقت کیخلاف کلمہ حق اداکرنے والے علمائے دین کے حق میں بات کرتاہے یاکم ازکم اُن کی بات کولوگوں کے سامنے اسی اندازمیں رکھتاہے جس طرح وہ کرتے ہیں؟بڑے افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ ہمارامیڈیابھی علمائے دین حق کونہیں درباری علما کوہی پسندکرتاہے۔راقم کی کوئی بات محترم مولاناطارق جمیل صاحب،اُن کے چاہنے والوں یامحترم حامدمیرصاحب سمیت کسی بھی صحافی دوست کوناگوارگزرے توپیشگی معذرت۔