ویٹیکن سٹی، عیساٸیوں کا مقدس شہر جو گرجا گھروں،مقدس ”کنواریوں“اور پادریوں کے نام نہاد تقدس سے مالامال نظر آتا ہےلیکن۔۔۔ جیسے جیسے وقت کا دھارا آگے بڑھتا ہے اپنے ساتھ بہت سی تلخ سچاٸیوں کوبھی بہاتا چلا آتا ہے اور موجودہ دور جس کوکہ میڈیاٸ دور بھی کہہ دیاجاۓ تونازیبانہ ہوگا ,اس دور میں ہر چھپی چیز تھوڑی سی کوششوں سے عیاں ہوجاتی ہے ۔اسی طرح اس مقدس شہر کے بھی مقدس چہرے پرموجود تقدس کا پردہ چاک کیا ہوا اس کے چہرے پر لگی کالک عیاں ہوگٸ ۔اب ہمیں پتہ چلنے لگا کہ گرجا گھروں کےخفیہ کمروں میں کس قسم کے بہیمانہ افعال ہوتے ہیں ۔انکی زمینوں میں بےمحابہ کنواری راہباٶں اور معصوم چھوٹے بچوں جو مذہبی تعلیم کے شوق میں آۓ یا لاۓ گۓ کے بےگوروکفن لاشے اپنے گناہوں کے ثبوت مٹانے کی خاطردفن کردیۓگۓ ۔اور یہ کام عام سے افراد کا نہ تھا ,بلکہ انہی گرجاٶں کے فادرز کا تھا۔
جی ہاں اور ان کو اس راہ پر لگایا کس نے؟ یہ سوال پوری دنیا کی تاریخ جب سے شروع ہوٸ تب سے لاجواب ہے۔ اب ذرا ہم آٸیں اس جگہ کی طرف جہاں میرے رب نے اپنی رحمتوں کے نزول کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دوبارہ جاری کیا ۔ان رحمتوں کو خلافت عثمانیہ نے تو خوب ہی پوری دنیا کی لۓ استعمال کرنے کی کوشش اور مشقت کی مگر ایک بار پھر تعصب کی آگ بڑکاٸ گٸ اور اس آگ میں جھلس کر پھر نادان مسلمان اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں اس عظیم سلطنت عثمانیہ کو توڑ پھوڑ کر منھے چنھے ممالک میں منقسم ہوگۓ۔
اور اب صورتحال یوں ہوٸ کہ تقریباً سارے ہی اسلامی ممالک اپنی ہی سرزمین میں مست ہیں اور دوسرے مسلمانوں اور اپنے مذہب اسلام سے مکمل طور پر بےپرواہ ہوچکے ہیں جس کے نتیجے میں ہمیں بہت سی ایسی باتیں ہوتی نظر آرہی ہیں جنکے متعلق بات کرنا اور ان پر قدغن عاٸد کرنا ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم سب پر ہمارے مالک نے فرض کیا ہے لیکن ہم سب اپنے حال میں مست ہوچکے ہیں اور ہمیں اس کی کوٸ پرواہ ہی نہیں کہ بہت تیزی کے ساتھ اب ہم فتنوں کے دور میں قدم رکھ چکے ہیں۔ اس دور میں کہ جس میں ہمیں یہی نہیں پتہ کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ؟
اس دور میں کہ جس میں ہم نے دیکھا کہ سعودی عرب میں تقریباً پچاس کے قریب جزاٸر کھول دیۓ گۓ کہ وہاں مغربی تہذیب اپنا ننگا ناچ ناچے ۔ہم نے اپنی نظریں چرالیں کہ وہ تو انکا مسٸلہ ہے لہٰذا وہ جانیں اور انکا کام۔پھر ہم نے دیکھا کہ وہاں سینما گھر کھل گۓ اور وہاں عوام کا جم غفیر کس طرح دیوانوں کی مانند رخ کرنے لگا ۔چیختی دھاڑتی باپردہ خواتین سینما گھروں کی طرف لپک کے گٸیں ۔کندھے اچکا کر ہم نے انسے کمر کرلی کہ ہمارے تو سینما گھر توڑ کر شاپنگ مالز بنادیۓ اور ہمیں اس تفریح سے محروم کردیا گیا ۔تو ہمیں کیا؟؟؟
نماز کی پابندی وہاں اس قسم کی تھی کہ اذان ہوتے ہی روڈز خالی ہوجاتی تھیں جو جہاں اذان کی آواز سنتا وہیں کام چھوڑ کر نماز کی طرف متوجہ ہوجاتا ۔اس کام کو احسن طریقے سے انجام دینے کے لۓ مذہبی پولیس بناٸ گٸ لیکن اب یہ بد خبری بھی سن لی گٸ کہ اب کوٸ نماز کی پابندی نہیں رہی ۔اذان کی آواز کان میں پڑ بھی جاۓ تو آپ بےنیاز بھی رہ سکتے ہیں یہ آپ کا پورا حق ہے ۔اور اس حق کو اسلامی اسلحہ فیکٹری نے بھی بدرجہ اتم قبول کرکے وہاں سے نظر اندازی ہی کا پرانا رویہ برقرار ہی رکھا کہ ان گنی چنی حدود پر پابندی سے عمل کرنے کی صورت میں وہاں جراٸم کی شرح ناقابل یقین حد تک کم تھی تو اب وہ بھی ہمارے ہی جیسے بھٹکے ہوۓ ہو بھی جاٸیں تو کیا نقصان ؟ جب بزعم خود ہم کوٸ نقصان نہیں اٹھارہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو کیا واقعی میں ہم کوٸ نقصان نہیں اٹھارہے ؟؟؟
ویٹیکن سٹی سے سعودی عرب کا موازنہ کیوں کیا ؟اور اس میں ہمارا کیا واسطہ ؟؟؟ہم تو پاکستانی ہیں ۔اپنی کھال میں مست لہٰذا ہمیں کیا ؟شروع میں ہی تزکرہ ہوا کہ فتنے کا دور ہے ۔جس میں محفوظ رہنے کا صرف ایک ہی طریقہ بتایا جاچکا ہے کہ ”قرآن وحدیث کو مضبوطی سے پکڑ لو“ اگر ہم اس پر مضبوطی سے کاربند ہوگۓ تو پھر ہمارا معاملہ پہلے سے بالکل مختلف ہونا چاہیۓ۔”سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے “ کے مصداق ہمیں اپنے آپ کو بنانا ہے ,یہ ہماری مجبوری ہے ,ہمیں دخل دینا ہوگا سعودی عرب کے تیزی سے بگڑتے ہوۓ معاملات میں ۔ہمیں مداخلت کرنی ہوگی بنگلہ دیش ,یمن ,مصر,فلسطین ,برما,عراق,کشمیر اور ہر اس جگہ میں جہاں بھی انسانیت پر کسی بھی قسم کا ظلم ہو کہ ایک مسلمان کبھی اپنے پیارے رب کی زمین پر ظلم برداشت نہیں کرسکتا ۔
جبکہ آپ لوگوں کو اندازہ ہے کہ آپ کے رب نے آپ کو یہ ملک پاکستان کس لۓ بخشا؟آپ کو پاکستانی ہونے کا اعزاز کیوں دیا؟آپ کو بخشی گٸ مملکت خداد کو آپ کے پیارے رب نے پوری دنیا کی نعمتوں سے کیوں بھر دیا ؟آپ کو افرادی طاقت سے کیوں نوازا؟ ان سارے سوالوں کا ایک ہی جواب ہےاور وہ ہی ہم سب کو سمجنے کی مشقت کرنی ہے ۔
ہمیں ہمارے پیارے رب نے پوری دنیا کے انسانوں اور بطور خاص مسلمانوں کے لۓ برپا کیا ,اور ہمارا مقصد صرف اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ کرنے کی راہ میں موجود ساری رکاوٹیں دور کرنا ہے ۔یہی ہماری پیداٸش کا مقصد ہے۔اور یہی ہمارا کام۔
میری زندگی کا مقصد ترے دین کی سرفرازی میں اسی لۓ مسلماں میں اسی لۓ نمازی