قاضی حسین احمدؒ میاں طفیل محمدؒ کے بعد۱۹۸۷ء میں امیر جماست اسلامی کے تیسرے منتخب ہوئے۔قاضی صاحب ؒ۱۲؍ جنوری ۱۹۳۸ء کو صوابی کی تحصیل نوشہرہ کے ایک مردم خیز گائوں زیارت کاکاخیل میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جمعیت علمائے ہند کے اعلیٰ عہدے دار تھے۔ قاضی حسین احمدؒ کا نام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے نام پر رکھا گیا۔ قاضی صاحبؒ کا خاندان سید احمد شہیدؒ اور سید اسماعیل شہیدؒ کی تحریک کا حصہ رہا ہے۔ یہ خاندان جب جماعت اسلامی کاحصہ بنا تو اس خاندان کے چشم و چراغ قاضی صاحبؒ کے اندر، مولانا سید ابواعلیؒ کی انقلابی تعلیمات کی وجہ سے نکھار پیدا ہوا۔قاضی صاحب ؒجماعتی اور غیر جماعتی حلقوں میں یکساں مقبولیت کے حامل تھے۔
جماعت اسلامی کے اندرونی اور بیرونی حلقوں کی متفقہ رائے ہے کہ جماعت کے بنیادی دستور پر عمل کرتے ہوئے جماعت اسلامی کو عوامی جماعت بنانے میں قاضی صاحبؒ کی سیماب طبیعت کا بڑا دخل ہے۔ جہاد کشمیر، افغانستان، فلسطین ، چیچنیا، برما کے روہنگیا، مغرب کے وسط میںبوسنیا، عراق اور دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے استعماری طاقتوں سے لڑتے رہے ۔ قاضی صاحبؒ نے ان سب کی پشیتبانی کی۔ جماعت اسلامی کی ۲۲ سالہ امارت سے ۲۰۰۹ء میں فارغ ہو کر بھی ’’ادارہ فکرو عمل‘‘ کے تحت ۲۰۱۲ء میں ایک عالمی کانفرنس ’’ وحدت امت‘‘کے موضوع پر اسلام آباد منعقد کی۔
ہر انسان کو اللہ نے مختلف قسم کی خوبیوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ قاضی صاحبؒ پیدائیشی مرد مجاہد، سیماب طبیعت ، جد و جہد اور ہردلعزیز شخصیت کے حامل تھے۔ مولانا مودودیؒ کے زمانے سے ہی اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے ضرورت کے مطابق نئی راہیں اور نئے تجربات کرنا جماعت اسلامی کی روایت رہی ہے۔ جیسے انسانی حقوق کی بحالی کے لیے جماعت نے لبرل اور لیفٹ کے ساتھ مل کے کام کیا۔ اسلامی دستوری کا آغاز جماعت اسلامی نے کیا اور مشترکہ محاذ ۱۹۵۰ء کی دہائی میں قائم ہوا۔ سیاسی جماعتوں کامتحدہ حزب اختلاف بنا، جس میں اسلام پسند ، قومیت پسنداور سیکولرسٹ سب شریک تھے۔ختم نبوت کی تحریک اور پھر بھٹو صاحب کے خلاف ۹ جماعتی قومی جمہوری اتحاد بنا جس میں سب شامل تھے۔
قاضی صاحب کی سوچ تھی کہ جماعت اسلامی کی انتھک قیادت کی محنت سے کافی لوگ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار ہو چکے ہیں۔لہٰذا اب ان کو استعمال کر کے اسلام دشمنوں سے فائنل راؤنڈ کھیلانا چاہیے۔ اسی لیے قاضی صاحبؒ جماعت اسلامی کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے جماعت سے باہر لوگوں کے قابل عمل مشورے کو بھی جگہ دی۔ اسی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے، قاضی صاحبؒ نے شوریٰ کے مشورے سے جماعت میں عوامی روح پھوکنے کے ۳۱۳ ساتھیوں کی معیت میں ’’ کاروان دعوت و محبت‘‘کے ذریع پورے ملک میں ہلچل مچا دی۔۱۹۹۰ء مینار پاکستان پر کل پاکستان اجتماع کر کے تسلسل کے کے ساتھ اجتماعات کرنے روایت تازہ کی۔
جماعت اسلامی میں متفق کی اصطلاح کی جگہ ’’ ممبر‘‘ کے نام سے ممبر سازی کی ۔مظلوںکی داد رسی ، خدمت اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے جماعت اسلامی میں پبلک ایڈ کمیٹیوں کی بنیاد رکھی۔نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لیے پاسبان بنائی۔ مگر یہ منصوبہ صحیح نہج پر نہ چل سکا۔ پاکستان اسلامی فرنٹ کا تجربہ کیاگیا۔ جو نتائج نہ دے سکا۔ متحدہ مجلس عمل بنائی، جس میں کامیابی ہوئی ۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اس کے تحت حکومتیں بنیں۔ مرکز میں اپوزیشن کی لیڈر شپ ملی۔ مولانا فضل الرحمان صاحب قائد حزب اختلاف بنے۔
پاکستان میں شیعہ سنی فساد کو ختم کرنے کے لیے ملی یکجہتی کونسل بنائی۔ ملک بھر میں عوامی کارواں، ریلیاں اور دھرنے منعقد کیے۔اس پر قاضی صاحبؒ دھرنا بابا مشہور ہوئے۔بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کو آگے برھانے کے لیے قاضی صاحب ؒ نے مختلف طریقوں سے جد و جہد کی۔ کسی میں ناکامی اور کسی میں کامیابی ہوئی ۔کیونکہ کامیابی اور ناکامی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
قاضی صاحب پر مہمند ایجنسی کے دورے کے دوران ایک گاڑی میں نصب شدہ بم کو ریموٹ کنٹرول سے اُڑا کر شہید کرنے کی کوشش کی۔قاضی صاحب نے حملے کے بعد اخباری بیان میںاور ایک ٹی وی پرو گرام میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ان کو معلوم ہے کون لوگ حملہ کرنے والے ہیں۔اسے اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو قاضی صاحبؒ کو راستے سے ہٹانے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایک پڑوسی مسلمان ملک افغانستان کی اسلامی شناخت ختم کرنے کے لیے اس پر حملہ کیا ۔ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کو مدد فراہم کی یا کر تے رہے ہیں۔ کچھ دانستہ اور اب کچھ نادانستہ۔۔۔ پاکستان کے عوام کو معلوم ہے کہ امریکا کے تھنک ٹینک اُنہیں بار بار مشورے دے چکے ہیں کہ کیمونزم کے بعد اُن کے مد مقابل اسلام ہے۔ پاکستان اور دنیا میںاس کی سرخیل مولانا مودودیؒ کی برپاہ کردہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک ہے۔ پاکستان میں ساری افراتفری کے پیچھے گریٹ گیم کاحصہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں پاکستان کی اسلامی شناخت ختم ہو، انتشار ہو، خانہ جنگی ہو، لاء اینڈ آڈر ہو، اقتصادیات کو تباہ کر دیا جائے، پاکستان ناکام ریاست ہو اور بلا آخر دنیا میں پروپیگنڈا کر کے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کیا جائے یا اسے اقوام متحدہ کے کنٹرول میں دے دیاجائے۔
اُن کے ساتھ بھارت کے وہ لوگ شامل ہیں جن پر مسلمانوں کے آباواجداد نے ایک ہزار سال حکومت کی ہے۔جن کی آٹھ لاکھ فوج کو جماعت کی اسلامی کی پالیسیوں کی وجہ سے کشمیر میں پچھلے کئی سالوں سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ ان کا ساتھ یہودی ہیں جن کی نافرمانی کی وجہ سے رب کائنات، جہانوں کے رب نے انہیں دھتکار کے اور امامت چھین کر امت مسلمہ کو دی تھی۔ وہ اس ضد میںاللہ کے ہر کام کی مخالفت کر تے ہیں۔ انہوں نے اللہ کے مقابلے میں سود کا نظام قائم کیا۔ بے حیائی کا چلن عام کیا۔ لوگوںکا ناحق قتل کیا۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کرفلسطینی عوام پر ظلم کی انتہا کر دی۔ سار ی مسلم دنیا میں بگاڑ کا سبب ہیں۔بھارت اور اسرائیل کی دہشت گردی کی کمانڈ امریکا کر تا رہا ہے اور کر رہا ہے۔۔پاکستان کے نادان حکمرانوں نے پچھلے۶۵ سال سے امریکا کو دوست بنایا ہوا ہے جبکہ وہ کبھی بھی پاکستان کا دوست نہ تھا اور نہ ہے ۔کوئی دوست ملک کسی دوست ملک کو کہہ سکتا ہے میری بات مانوں ورنہ، تمہیں پتھر کے دورمیں پہنچا دیا جائے گا؟ ایسا تو غلام لوگوں کو کہا جاتا ہے۔
اللہ کا فرمان ہے یہود و نصارہ مسلمانوں کے دوست ہر گز نہیں ہو سکتے۔ اس لیے کہ امریکا کی چالوں کا توڑ کرنے کے لیے انہوں نے ملک سے امریکا کو نکا لنے کے لیے ’’گو امریکا گو ‘‘ مہم شروع کی۔شیعہ سنی اتحاد کے خاتمے کے لیے ملی یکجہتی کونسل کو فعال کیا اور پاکستان کے تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کو اکٹھا کیا اور صرف اکٹھا ہی نہیں کیا بلکہ ملی یکجہتی کونسل نے اتحاد و اتفاق کے لیے فی الواقعہ کام کرنا بھی شروع کر دیا۔جمعہ کے خطبات میں مسلمانوں میں اتحاد اتفاق کے علاوہ ملک دشمنوں کی پہچان کا پروگرام شروع کیا۔۔۔ اتحاد مسلمین کے لیے مسلم دنیا کے لیڈروں کو پاکستان میںجمع کیا۔۔۔ امریکی فرنٹ لین اتحاد ی اور امریکی جنگ سے پاکستان کو باہر نکانے کی سوچ کی رہبری کرتے رہے۔
۔۔۔افغانستان کے طالبا ن جو اپنے ملک سے امریکی ؍ ناٹو فوجوں کو نکالنے کی جنگ کر رہے ہیں اس کو جائز سمجھتے ہیں۔۔۔امریکا کے مقامی ایجنٹوں سے کش مکش کرتے ر ہے۔۔۔ ناٹو سپلائی کی پابندی کے بعد اس کی بحالی کی مخالفت؍ مزاحمت کی تحریک کو لیڈ کیا۔۔۔امریکی حمایت یافتہ این آر او زدہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی ملک دشمن پالیسیوں کی مخالفت کرتے رہے۔۔۔ امریکا مخالف سیاسی جماعتوں کے ایک بڑے اتحاد کی پلائنگ کرتے رہے۔۔۔ ملک میں مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست کے لیے لوگوں کو تیار کرتے رہے ۔۔۔ اس تناظر میں آسانی سے پتہ لگ سکتا ہے کہ جمہوری طریقے سے جد و جہد کرنے والے قاضی صاحب کو راستے سے کون ہٹانا چاہتا تھا۔
۱۹۶۷ء کی بات کہ قاضی صاحبؒ کے میڈیکل اسٹور پشاور پر افغانستان کے مجائدین کا آنا شروع ہوا۔ پھر مولانا مودودیؒ کی مشاورت اورہدایت کے بعد قاضی صاحبؒ نے افغانستان میں کیمونزم کی یلغار کو رکنے کے لیے پے در پے دورے کیے۔ یہ اسی کی برکت تھی کہ افغانستان میں روس کو شکست ہوئی۔قاضی صاحبؒ نے کشمیریوں کی مدد میں دل جان سے کام کیا۔حریت کانفرنس کے لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔۵؍ فوری ۱۹۹۰ء یوم یکجہتی کشمیر قاضی صاحب کی تجویز سے منانے کی ابتدا ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ بو سینیا میں دکھی مسلمانوں کے ایک بہت بڑا پیکج لے پہنچے۔ چیچینیا کے صدرزیلم خان کو پورے پاکستان کے دورے کرائے ۔ پاکستانیوں سے چیچینیا کے لیے نقد امداد زیلم خان کے حوالے کی۔
دینی علماء اور سیاسی مخالفوں کا خود بھی احترام کرتے تھے اور کارکنوں کو بھی کی تلقین کرتے تھے۔ تمام مکتبہ فکر کے علماء سے قاضی صاحبؒ کے قریبی تعلقات تھے۔قاضی صاحبؒ نے تبلیغی جماعت کے سالانہ اجتماح میں شرکت کی روایت ڈالی۔علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ قاضی صاحب ؒ کے قریبی ساتھی تھے۔ راولپنڈی کے دھرنے میں قاضی صاحبؒ کے ساتھ استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے۔قاضی صاحبؒ، علامہ شاہ احمد صدیقیؒ کے سالانہ عرس کے میں شرکت کرتے رہے۔ آئیڈیاز اور خیالات رکھنے والی شخصیت تھے۔انہوں نے ہی اسلامی آباد سے تقریباً ۵۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک نیا شہر ’’قرطبہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔رات کو اللہ سے گھڑ گھڑا کر دعائیں کرنے والے، دن میں گھوڑوں پر سوار ہو کر اللہ کے دین کو قائم کرنے والے جن مومینینؓ کا اللہ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے۔ قاضی صاحب انہی صفات پر چلنے والے ایک مرد مومن تھے۔ اللہ اُن کی نیکیوں کو قبول کرے گنائوں کو معاف کرے آمین۔