کیا نماز گھر پر ہو تو نماز نہیں ہوگی؟ کیا میری محبت میری مخلصی میری صدقِ دل سے پڑھی جانے والی نماز کیا اللہ قبول نہیں کرینگے؟کیا میرا مسجد جاکر ہی نماز ادا کرنا فرض ہے؟ چھوٹے بچوں کے ان چند سوالات کے جواب دینا انتہائی مشکل ہوگیا ہے کیونکہ جب بڑے نہیں سمجھ پائے تو بچوں کو کیسے سمجھایا جائے؟ چھ فٹ کا فاصلہ کرکے نماز ادا کرنا ممکن نہیں اگر اس وائرس کی وجہ سے مسجدیں بند ہیں تو کیا یہ اچھا نہیں کیا حکومت جو سمجھانا چاہتی ہے ہم سمجھ جائیں، کیونکہ یہ ہمارے حق میں ہی بہتر ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا مکمل لاک ڈاون پر اصرار ہے ڈاکٹر مختلف میڈیا کانفرنس میں ہاتھ جوڑ کر عوام سے گھر پر رہنے کی التجا کرتے نظر آرہے ہیں کیونکہ سب سے زیادہ یہی لوگ اپنی جان خطرے میں ڈال کر انسانیت کو بچا رہے ہیں۔ حکومت عوام کے دباوّ میں آکر اگر کوئی ایسا فیصلہ کردیتی ہے جس کے باعث اس وائرس کو اپنی جڑے پاکستان میں گاڑنے میں مدد مل گئی تو کوئی بھی پاکستان کو بچا نہیں سکتا کیونکہ نہ ہی تو یہاں ہسپتال کی تعداد زیادہ ہے نہ ہی آئسولیشن سینٹرز اس طرز کے ہیں کہ وہاں علاج فوری بناء پر کیا جائے۔
پاکستان میں کچھ تعداد میں ہی لوگوں کو ٹیسٹ کیا گیا ہے اگر تعداد بڑھ گئی تو ہم جان کی بازی لگادیں کسی کی جان واپس نہیں لا سکے گے پاکستان میں وقت کے ساتھ دباو بڑھ رہا ہے ہم خود اپنے آپ کو خطرے کی طرف لے جارہے ہیں اس بات کا خیال رہے کہ پاکستان میں جو کیسس سامنے آئے ہیں اصل میں وہ صرف ان لوگوں کی تعداد ہے جن کے ٹیسٹ کیے گئے ہیں تعداد لاکھ بھی نکل کے آسکتی ہے اس وقت تک بھی ہمارے پاس ٹیسٹنگ کٹس نہیں ہیں جب سے تشخیص ہوسکے ممکن ہے کہ جون تک ٢ لاکھ افراد اس وباء کی زد میں آجائے اس کا علاج تو ہے نہیں اب تک 200 سے زائد ڈاکٹرز اس مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں کیا وہ مریضوں کو اپنی جان کی بازی لگا کر صرف اس لیے بچا رہے ہیں کہ مہینے کے آخر میں انہیں تنخواہ مل جائے؟ انکی فریاد سن لیں خدارا انکو اپنی نہیں آپکی زندگی کی پرواہ ہے اس وائرس کو سنجیدہ لیں خود بھی محفوظ رہے اور پاکستان کو بھی محفوظ رکھے اور اپنے گھر کے محافظ بن جائے۔
پوری دنیا میں مساجد کو عارضی طور پر اس جان لیوا بیماری کے پیشِ نظر بند کیا ہے تاکہ آنے والے نمازیوں میں یہ پھیل نہ جائے اور وہ اپنے اہل و عیال تک اس وائرس کو پہچانے کا ذریعہ نہ بن جائے کورونا وائرس کی کوئی نسل یا اسکا کوئی مذہب نہیں۔دنیا بھر میں اس سے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے جن میں کتنے مسلمان شامل ہیں اسکی گنتی کے ابھی کوئی نتائج نہیں ملے پاکستان میں لاک ڈاون اچانک کردیا جاتا تو بھی لوگ انگلیاں اٹھاتے کہ اچانک ملک بند کردیا لاک ڈاون کی تیاری کا موقعہ نہیں دیا گھر میں راشن نہیں ہاتھ میں پیسے نہیں جہاں تک حکومت سے ہورہا ہے حکومت پیش پیش ہے یہاں تو اس بات کی محاز آرائی جاری ہے کہ وہ کاروبار کھول سکتے تو ہم کیوں نہیں ؟ نافرمانیوں بدمعشیوں میں تو ہم سب سے آگے مسجد میں نماز پڑھنے سے پولیس روک لے تو ہم پولیس کو بھی نشانِ عبرت بنائے گے۔ راشن ملے گا تو ہم ذخیرہ کرکے مارکیٹ میں بیچینگے اب میڈیکل کا سامان تو اب دگنے دام میں بکے گا ماسک اور سینی ٹائیزر فروخت کی آمدنی سے تو جیسے مزہ ہی آگیا اور سیاست چمکانے کا موقع اس میں بھی ہم سب سے آگے،یہ تو حال ہے ہمارا۔علماء کے بٙقول کورونا اگر میرے رب کی ناراضگی ہے یہ کسی عذاب کی صورت ہم پر آگیا تو کیا ہمیں چھوڑ دےگا ؟
حکومت عوام کی خدمت میں پیش ہے پوری دنیا کا یہی حال ہے وائرس سے پوری دنیا آفت میں ہے بچہ بچہ اس سے ڈرا ہوا ہے تو کیا ہم اپنی عقلوں پر بھی وائرس لگا بیٹھے ہیں یہ بات ہم سے ہضم کیوں نہیں ہورہی ؟ وائرس کے دوسرے ممالک میں عروج پر پہنچنے کے کئی دن بعد پاکستان کو لاک ڈاون کی نظر کیا گیا اس وقت تک حکومت ہر اخبار ہر نیوزچینل اور ہر اشتہار میں یہ بات بار بار بتاچکی تھی کہ اب تیار رہیں وائرس کے خدشات بڑھ رہے ہیں مگر لوگ اس کو بھی سمندر کو چھو کر گزرنے والے نیلوفر کی طرح سمجھے لاک ڈاون کا تو جیسے مذاق بنادیا گیا ہو دنیا بھر کی عوام اس وائرس سے دوچار ہے تو ویسے ہی دنیا کی ساری حکومتیں بھی اس صورتِ حال کا پہلی بار سامنا کررہی ہیں جس ملک کی حکمتِ عملی کامیاب ہورہی ہے اسکو دوسرے ممالک اپنارہے ہیں جیسے ووہان شہر کی مثال۔
اس وائرس سے تو دنیا نکل جائےگی پر اس کے اثرات کئی برسوں تک ذہن میں گردش کرینگے اتنی لاچارگی اتنی بےچارگی کہ دنیا کی معشیت لرٙز گئی اور انسان ہاتھ باندھے دیکھتا رہ گیا۔اصل تبدیلی تو دنیا میں اب آئیگی کورونا سے ایک مثبت تبدیلی ضرور دیکھنے کو ملی کہ اس دنیا کی مال دولت پر صرف امیروں کی اجارہ داری نہیں بلکہ غریبوں کا بھی حق ہے اور اللہ کی عطا ہے ہی اسلیے کہ ہم بانٹ کر کھائے پوری زندگی کی جمع پونجی دٙھرِی ہی نہ رہ جائے اگر اللہ نہ کرے کہ کل کو کورونا آپکا دروازہ کھٹکھٹادے تو یہ آپ سے یہ نہیں پوچھے گا آپ کا مذہب کیا ہے یہ آفت پوری انسانیت پر آپڑی ہے۔خیال رکھیے کہی آپ آئسولیش میں بھی ائیر کنڈیشن میں بیٹھے ہو اور آپ کے گھر کے نزدیک غریب آبادی کے بچے بھوک سے بِلٙک رہے ہو کیونکہ یہی وقت انسانیت دکھانے کا ہے شاید جاتے جاتے کورونا ہمیں یہی سکھا جائے۔