اگر مسلمان ضد نہ کریں

ایک سیاستدان کے خلاف مقامی اخبار میں خبر شائع ہوئی تو انہوں نے اپنے وکیل سے اخبار کے خلاف مقدمہ کرنے کے لیے مشورہ کیا، وکیل اچھا آدمی تھا، پورا کیس سننے کے بعد بولا کہ صاحب آپ جس اخبار کی بات کررہے  ہیں اس کی اشاعت  10000 ہے ، اس کی 5 سے 7 ہزار کاپیاں فروخت ہوتی ہیں، جو لوگ آخبار خریدتے ہیں ان میں سے اکثر لوگ صرف پہلا اورآخری صفحہ پڑھتے ہیں، آپ کے خلاف خبر اندر کے صفحے پر شائع ہوئی ہے اند رکے صفحات 1000 سے 1500 لوگ پڑھتے ہیں، ان میں سے بھی اکثر لوگ اخبار کی ایسی خبروں پر یقین نہیں کرتے، بمشکل پانچ سو لوگ ایسے ہوں گے جو خبر پر یقین کریں گے اور اتنے تو عام طور پر سیاستدانوں کے مخالف ہوتے ہی ہیں ۔

یہ  لطیفہ مجھے مساجد کھولنے کے بارےمیں حکومت اور علماکے معاہدے کی خبر سنتے ہوئے یاد آگیا،درحقیقت یہ ایک ایسا جامعہ معاہدہ ہے ، اگر مسلمان ضد نہ کریں اور صرف وہی لوگ مسجد میں آئیں جو عام حالات میں مساجد میں آتے ہیں اور خاص طور پر اس اس معاہدے کی شق نمبر چھ پر پر عمل کیا جائے  جس کے مطابق پچاس سال سے زائد عمر کے افراد مساجد میں  نہیں آسکیں گے تو ہماری مساجد تادیر آباد رہ سکیں گی، اور پاکستان مساجد کو آباد کرنے والا عالم اسلام کا واحد ملک بن جائے گا ،( کیوں کہ سعودی عرب سے ایرن تک  مساجد بند ہیں ) مگر  کیسے آئیے دیکھتے ہیں:

اگر ہم مساجد میں آنے والے افراد کا بغور تجزیہ کریں، ان میں سے اکثریت پچاس سال سے زائد العمر  ہوتی ہے ، اب اگر یہ تمام افراد  محترم جناب مفتی منیب الرحمان کی ہدائت اور ان کے نقش قدم  پر چلتے ہوئے گھر پر ہی  نماز ادا کریں،کیونکہ مفتی صاحب نے دیگر علما کے ساتھ مل کر حکومت  کو  مساجد کھولنے پر تو قائل کر لیا،مگر معاہدے کی شق نمبر 6 پر عمل کرتے ہوئے وہ  خود گھر پر ہی نماز ادا کریں گے۔

بیمار ، بچے اور وہ تمام افراد جو عام طور پر مسجد میں نہیں جاتے  وہ بھی اگر مسجد میں نہ جائیں اور گھرپر ہی نماز ادا کریں تو مساجدمیں بمشکل اتنے ہی نماز ی پہنچیں گے کہ قانون حرکت میں نہیں آئے گا، یہ بہرحال ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری مساجد میں آنے والے افراد میں سے اگر بیمار، بچوں، بوڑھوں، اور پچاس سال سے زائد لعمر کے افراد کو نکال دیا جائے تو ہماری مساجد تقریبا خالی ہوجائیں گی، البتہ جمعہ پر ہماری مساجد بھرنے کا خدشہ رہے گا، اس سلسلے میں اگر بنوری ٹاون کے فتوی پر عمل کرلیا جائے تو حکومت اور علما کے درمیان معاہدے پر سوفیصد عمل ہوجائے گا۔

ایک رپورٹ کے مطابق جامعہ بنوری ٹاؤن نے گھر میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے متعلق فتویٰ جاری کر دیا ہےفتویٰ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث مساجد میں جانا ممکن نہ ہوتوکم از کم 4بالغ افراد گھر میں نماز جمعہ ادا کریں،گھر میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران دروازہ کھلا رکھا جائے، کوئی نماز میں شریک ہوناچاہے تو اسے نہ روکا جائے، کوئی نماز میں شریک ہوناچاہے تو اسے نہ روکا جائے۔

فتویٰ میں کہا گیا کہ اگر کوئی شخص باجماعت نماز نہ پڑھ سکے تو وہ اکیلے نماز ظہرادا کرے،اگرمسجد میں پنج وقتہ نماز باجماعت پڑھنا ممکن نہ ہو تو گھر میں جماعت کرائی جائے، امام کے پیچھے ایک مرد یا ایک نابالغ  بچہ ہو تو وہ امام کی دائیں جانب تھوڑا پیچھے کھڑا ہو،اگر امام کے ساتھ دو یا دوسے زیادہ بالغ مرد ہوں توہ پیچھے صف میں کھڑے ہوں،اگر امام کے ساتھ ایک خاتون ہو   تو وہ پچھلی صف میں کھڑی ہو، امام کے ساتھ ایک مرد اور ایک خاتون ہوں تو مرد دائیں تھوڑا پیچھے اور خاتون پچھلی صف میں کھڑی ہوں۔

آئیے ہم سب عہد کریں کہ ہم  نہ صرف حکومت اور علما کے درمیان طے پانے والے معاہدہ پر سوفیصد عمل کریں گےبصورت دیگر وزیر اعظم عمران خان کہہ چکے ہیں اگر مساجد کی آباد کاری کی وجہ سے کرونا پھیلا تو پھر ایکشن ہوگا اور اب کی بار اگر مساجد بند ہوئیں تو پھر غیر معینہ مدت کے لیے ہوں گی اس بارےمیں شائد علما بھی کچھ نہ کرسکیں۔

حصہ
mm
بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے ساتھ ، کمپیوٹر سائنسز ،ای ایچ ایس سرٹیفیکٹس  اور سیفٹی آفیسر  ڈپلومہ ہولڈر ہیں۔فی الوقت ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں۔علاہ ازیں بائی نیچر صحافی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں