بس میں نے کہہ دیا کہ میں ضرور جائوں گی ۔۔۔۔۔مجھے آپ کا کوئ بہانا نہی سننا ۔۔۔ویسے بھی آپ مجھے کہیں نہی لیجا تے ،اور مفت کا موقع مل رہا ہے تو اسمیں بھی مسلۂ ہے آپ کو ۔۔۔۔۔۔شازیہ اپنے شوہر امجد کی کوئ بات سننے کو تیار نہ تھی، اس نے تو ایک ہی رٹَ لگا رکھی تھی کہ “ مجھے احد مرتضیٰ کے مشہور شو “ کھیلو پاکستان “ میں جانا ہے ۔
آج صبح ہی اس کی پکی سہیلی ارم اسے گیم شو کے دو عدد پاسز دے کر گئ تھی ،ارمُ کے شوہر ایک بڑے چینل میں ٹیکنیشن تھے ،اور گاہے بگاہے انہیں چینل کے فیملی شوز کے پاسز ملتے رہتے تھے ۔پچھلی بار جب وہ” کھیلو پاکستان “سے ڈھیروں تحائف لے کر آئ تھی تو انہیں دیکھ کر شازیہ کے دل میں بھی مفت انعامات حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوئ ۔۔۔۔۔اور تب ہی سے اس نے ارم کو کہہ رکھا تھا کہ اب جب بھی اسے پاسز ملیں گے وہ شازیہ کو بھی دے گی ۔
شومئ قسمت اس بار رمضان المبارک کی آمد کی خوشی میں پاسز بھی بڑی تعداد میں بانٹے گۓ، اور حسبِ وعدہ ارم اسے بھی پاسز دے گئ ۔۔۔۔۔۔۔امجد ایک سیدھا سادہ اور دیندار شخص تھا جبکہ شازیہ نہایت ضدی اور خود پسند تھی ،ان کی شادی کو تین سال ہوچکے تھے پر شازیہ نے کبھی اپنی اصلاح کی کوشش نہ کی ، لڑ جھگڑ کے ہمیشہ اپنی بات ہی منواتی …
امجد کسی بھی قیمت پر اپنی نماز اور ازکار کا ہرج کر کے رمضان کے بابرکت وقت کو ان فضولیات میں برباد نہی کرنا چاہتا تھا ، لہٰذا اس نے چلنے سے صاف انکار کر دیا ۔۔۔شازیہ نے رو رو کر آنکھیں سجا لیں ۔۔امجد نہایت پریشان تھا، وہ جانتا تھا کہ اگراس نے شازیہ کی بات نہ مانی تواس نے دن رات جھگڑا کر کےگھر کا سکون برباد کرنا ہے آخر اسے ہتھیار ڈالنے پڑےاوراس نے حامی بھر لی، شازیہ کے تو پائوں خوشی سے زمین پرنہ ٹک رہے تھے اس نے تمام محلے میں خبر دے دی تھی کہ وہ اتنے بڑے پروگرام میں جارہی ہے ۔
مقررہ تاریخ کو صبح سویرے ہی گھر کے سارے کام نپٹا کراچھے سےکپڑے پہن کر تیار ہوکرامجد کےساتھ اسٹوڈیو کے لیۓ نکلی ، گرمی کے روزے اور دوپہر میں یوں تیار ہو کر بس اسٹاپ پر پہنچے تو پسینے سے شرابور تھے ۔بس نے تقریبا” پونے گھنٹے میں جب اسٹوڈیو پہنچایا تو دونوں کا برا حال تھا ۔ گیٹ پرکھڑے انتظا میہ کے افراد سب کی چیکنگ کر کے اندر بیجھتے جا رہے تھے ،ہال میں بے انتہاء رش تھا ، گیم شو کے شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے ہی سب کو وہاں بلایا گیا تھا ، افراتفری اور دھکم دھکی میں شازیہ کئی لوگوں سے ٹکرا ئ ،اسے سخت کوفت ہو رہی تھی “ سب کے پاس ان کی سیٹ کا نمبر موجود ہے پھر بلا وجہ کیوں ادھر ادھر ٹکراتے پھر رہے ہیں ؟؟
خیر اپنی سیٹ کا نمبر ڈھونڈھ کر وہ بھی بیٹھ گۓ۔۔۔۔پر یہاں عجیب انتظام تھا ، سب عورتوں مردوں کو ایک ہی جگہ بٹھایا گی تھا، جو کہ کافی تکلیف دہ تجربہ تھا ،چاروں طرف زیادہ تر بے پردہ اور میک اپ زدہ خواتین خوش گپیوں میں مشغول تھیں ، ان کے شوہر موقع اور فرصت پاکر ادھر ادھر تاک جھانک کر رہے تھے ۔ میوزک بجانے والا بینڈ آچکا تھا اور وہ مختلف دھنیں بجا کر اپنی ریہرسیل کر رہے تھے ، تیز جھلتی بجھتی روشنیاں آنکھوں کو چندھیا رہی تھیں ۔
لوگوں کے آنے کاسلسلہ جاری تھا، کچھ ہی دیر میں تمام سیٹیں پر ہو گئیں ۔۔۔۔۔اس گہما گہمی میں کسی کو خبر نہ ہوئ کہ عصر کی نماز کا وقت کب شروع ہوا اور کب ختم ۔۔۔امجد اورکچھ دوسرے باریش افراد نے تو انتظامیہ سے طویل بحث و تکرار کے بعد باہر کہیں جا کر نماز ادا کر لی پر باقی سب بیٹھے ساز وموسیقی سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔۔۔۔۔آخر کار مشہور ڈی ۔جی احد مرتضیٰ کے آنے کا اعلان ہوا ، کانوں کے پردے چیرتی موسیقی کی دھن اور تالیوں کی گونج میں وہ ہال میں داخل ہوا، خوب جگت بازیاں خوب ناچ گانا، شعر وشاعری ، پیروڈی اور بزلہ سنجی سے ڈی جے “احد مرتضی” نے محفل کو گرما دیا۔
ڈھیروں انعامات بانٹے جا رہے تھے، خوب ہنر مندیاں اورجوہر نمایاں دکھاۓ جارہے تھے..سب کے چہرے خوشیوں سے جگمگا رہے تھے، بچے بوڑھے جوان سب مگن تھے، پر امجد کا دل بہت دکھی تھا، آج وہ اس محفل میں شامل ہو کر خود کو ﷲ کا بہت بڑا گناہگار سمجھ رہا تھا ، کیونکہ وہ ساز وموسیقی جیسے خرافات کے حرام ہونے کی وجہ سے بے حد ناپسند کرتا تھا ،اور رمضان المبارک کے ان پاکیزہ لمحات میں وہ ﷲکے احکامات کی خلاف ورزی کو اور بھی بڑا گناہ تصور کرتا تھا ۔۔۔پر اپنی ضدی بیوی کی ناراضگی کی فکر سے چارو ناچار بیٹھا ہوا تھا ۔
افطار سے کچھ دیر قبل احد مرتضی ٰنے انعامات کی برسات کر دی ، حاظرین کی جانب تحائف اچھال کر دیۓ جا رہے تھے ۔۔۔۔شازیہ کو بھی وہ خوبصورت “برانڈیڈ گفٹ بیگ “ چاہیۓ تھا ۔وہ بھی اوروں کی طرح کھڑی ہو کر ہاتھ اٹھا کر گفت مانگنے لگی ۔۔۔۔۔۔امجد اس طرح مانگ کر کسی سے تحائف لینے کو نہایت معیوب سمجھتا تھا اس نے شازیہ کو بہت روکا پر وہ کہاں کسی کی سننے والی تھی ۔۔۔۔۔۔اتنے میں ایک ورکر لڑکے نے شازیہ کی طرف گفٹ اچھالا ۔۔۔۔شازیہ کے ہاتھ سے پھسل کر نیچے بیٹھی آنٹی کی گود میں جا گرا ۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ شازیہ وہ اٹھاتی انہوں نے اسے اپنی سیٹ کے نیچے چھپا دیا ۔۔۔۔۔۔۔شازیہ بڑی عمر کی ان آنٹی کی اس حرکت پر حیران رہ گئ ۔۔۔۔۔ پر وہاں سب ہی اسی طرح چھینا جھپٹی اور مانگ تانگ کر تحائف پر ٹوٹے پڑے تھے۔۔ شازیہ کا منہ بن گیا ، مشکل سے ہاتھ آیا گفٹ جو اس کے قبضے سے نکل چکا تھا۔
افطار کا وقت ہوا تو سب کو لنچ باکس شربت وغیرہ دیے گیۓ ، ابھی ٹھیک سے افطاری بھی نہ کر پاۓ تھے کہ دوبارہ موسیقی اور وہی ہلڑ بازی شروع ہو گئ ۔۔۔نہ کسی نے نماز پڑھی نہ ہی کوئ ازکار کیۓ ۔۔۔ کیسا بے برکت افطار لگ رہا تھا ۔۔پاکیزہ اور پرسکون افطارجو اپنے گھر میں اپنے اہل وایال کے ساتھ کیا جاتا ہے اس کا تو الگ ہی لطف ہے ۔
شازیہ نے گھر سے چلتے وقت امجد کو تاکید کی تھی کہ اسے موٹر سائیکل کے لیۓ مقابلے میں ضرور حصہ لینا ہے ۔لہزاٰ جیسے ہی احد مرتضیٰ نے موٹر سائیکل کے لیۓ گیم کا اعلان کیا ،تو شازیہ نے امجد کو بھی جلدی سے سٹیج کی طرف دھکیلا ،چھ لڑکوں کے درمیان مقابلہ تھا ۔۔۔ اور انہیں “کتے کی بہترین آواز” نکال کر سنانی تھی۔۔سب سےاچھے کتے کی آواز والے لڑکے کو موٹر سائیکل انعام میں دی جانی تھی۔
امجد مقابلے کی نوعیت سن کر گیم سے دستبردار ہونے ہی والا تھا کہ شازیہ ہاتھ جوڑ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں التجائیں کرتی دکھائ دی ۔۔۔۔۔آخرکار امجد نے بھی مقابلے میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا ۔۔باری باری سب لڑکے عجیب وغریب کتوں کی آوازیں نکال کر اپنا “ ٹیلنٹ”دکھا رہے تھے ۔۔۔پورا مجمع ہنس ہنس کر دوہرا ہو رہاتھا ۔۔۔۔
آخر میں امجد کی باری تھی ،اس نے ہمت کر کے آواز نکالی۔ بھئو بھؤ بھؤ ۔۔۔بھؤ بھؤ بھؤ۔۔۔۔بھؤووں ں ں ں ں ۔۔۔۔۔۔۔
اس کی بھاری مردانہ آواز میں کتے کی آواز سن کر پورا ہال کشت زعفران بن گیا ۔ حاظرین نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں ۔ڈی۔ جے نے امجد کو گلے سے لگا کر حوصلہ افزائ کی ۔۔۔امجد ہی موٹر سائکل کا حقدار بنا کیونکہ “بقول احد مرتضیٰ “ اس کی کتے کی اواز سب سے منفرد تھی “۔۔امجد کو فیملی کو بلانے کا کہا گیا توشازیہ جھٹ سے آگئ ۔۔۔ احد مرتضیٰ نے حسب روایت اسے موٹر سائیکل پر بٹھا کر رائونڈ لگوایا ۔۔شرم سے امجد کی نظریں زمین پر گھڑ چکی تھیں ۔ اس نے کبھی سوچا نہ تھا کہ اس کی نظروں کے سامنے اس کی بیوی کسی نامحرم لڑکے کے ساتھ موٹر سائکل پربیٹھے اور وہ اسے کچھ بھی نہ کہہ پاۓ گا۔۔۔ غلطی تو اس کی اپنی ہی تھی جو اس طرح کے مخلوط پروگرام میں بیوی کو لے آیا تھا۔۔
پروگرام کے ختم ہونے اورگھر پہنچنے تک رات کے ایک بج چکے تھے ، امجد کو اپنی نماز اور تراویح کے نکل جانے کا بے حد صدمہ تھا اس نے خاموشی سے وضو کر کے نماز پڑھی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔۔ شازیہ پہلے ہی بہت شرمندہ تھی ، وہ اپنے شوہر کی یہ حالت دیکھ کر تڑپ گئ، وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ اس کی یہ بے جا ضد انہیں ﷲ کا اتنا نافرمان بنا دے گی ۔اور شوہر کی ناراضگی اور دکھ کا باعث ہو گی۔ اس نے امجد سے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی کسی مخلوط محفل میں ہر گز نہ جاۓ گی، اور یہ کہ رمضان المبارک کا ایک ایک قیمتی لمحہ عبادت ِ اور ﷲتعالیٰ کی خوشنودی کے حصول میں صرف کرے گی ۔