آپ سے کیا گلہ کریں۔ گلہ تو اپنے آپ سے ہے۔ ٹک کے جو نہیں بیٹھا جارہا۔ اب گھومنے پھرنے کی عادت کوئی چار دن کی تو ہے نہیں ۔ اس لیے ٹکتے ٹکتے ہی تو ٹیکیں گے۔ابھی تو وہم کے مرض نے دل و جان کو قابو کیا ہوا ہے۔
ایک ہی کام ہے،صبح دھونا ہاتھ کا اور شام دھونا ہاتھ کا۔ لیکن اب یہ صبح شام سے نکل کر ہر وقت کا ہاتھ دھونا ہوگیا ہے۔ کبھی اس مرض وہم میں اہلیہ مبتلا تھیں۔اب سارے اہل خانہ ہیں۔ پہلے ہم کہتے تھے آپ کو کچھ وہم ہوگیا ہے، اور اس وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہ تھا۔ آپ تندرست ہیں، ماشا اللہ بھلے چنگے ہیں، دنیا جہاں کی نعمتوں سے سرفراز ہیں۔
لیکن یہ ہاتھ دھونے کا مرض ہے کیا؟ اور اس مرض کی دوا کیا ہے؟ اور اگر یہ مرض لادوا آپ کو لاحق ہوگیا ہے تو اللہ شافی، اللہ کافی کا ورد کریں۔ اور کسی طبیب سے رجوع کریں۔ ورنہ گھر کے کونے کھدرے میں منہ ڈال کر اس بات کو زور زور سے اپنے آپ سے کہیں ۔ میں ٹھیک ہوں، میری صحت اچھی ہورہی ہے۔ میں تندرست ہورہا ہوں۔
آج کل سب طبیب بھی اسی مرض میں مبتلا ہیں۔ ڈرے ڈرے سے کمروں میں بند ہیں۔ نہ کسی کو ہاتھ دیتے ہیں اور نہ کسی کا ہاتھ لیتے ہیں۔پہلے تو لوگ ایسے پائیہ کے تھے۔ کہ جب سے لیا ہاتھ تیرا ہاتھ میں۔ میں تو ولی بن گیا اک رات میں۔لیکن چچا غالب نےہمارے ولی بننے کی راہ بھی مسدود کردی۔ اور شرط لگا دی کہ تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتے۔،، میں چھوٹا سا ایک جرثومہ ہوں….