رمضان المبارک کی آمدآمدہے٫تمام عالم اسلام بے انتہاء عقیدت اوراحترام کے ساتھ اس مبارک مہینے کے منتظر ہیں اورکیوں نہ ہوں،اس مبارک مہینےکا ایک ایک لمحہ ہماری مغفرت اورجہنم سےنجات کا ذریعہ ہے۔اس خاص الخاص محترم مہینے میں جہاں عبادات پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے وہیں دوسری طرف سحراور افطار کی تیاریوں کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے٫ ہر گھر میں خواتین اپنے اہل خانہ کے لیےغذائیت سے بھرپورمزیدار پکوان پکاتی ہیں تاکہ پندرہ سولہ گھنٹے کے طویل روزے کے دوران توانائ بحال رہ پائے اور تراویح جیسی منفرد اور بابرکت عبادت کے لئے طبیعت ترو تازہ رہے ۔
عام دنوں میں ہم پھل، دودھ، مشروبات ، کھجلہ پھینی اور اسی نوعیت کے دوسرے لوازمات کا استعمال روزانہ کی بنیاد پر نہی کرتے ، مگر رمضان المبارک میں ہر کس و ناکس کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو ہر طرح کی بہترین اشیائے خورونوش مہیا کرے ۔مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں رمضان المبارک کے آغاز سے پہلے ہی سے اشیائے خورونوش کے دام آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں اور غریب اور متوسط طبقے کی دسترس سے دور چلے جاتے ہیں ۔
حالانکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سارا سال منافع کمانے والے تاجر اور دکاندار بھائ اس مبارک مہینے کے احترام میں اپنی اشیاء کے دام نیچے لے آتے تاکہ اس ایثار وقربانی کے باعث وہ استطاعت نہ رکھنے والے روزے داروں کے لیے راحت کا سبب بن سکیں ،اور اپنے لیے اجر عظیم حاصل کر یں ۔تجارت اگر دیانت داری سے کی جائے تو وہ عبادت بن جاتی ہے ۔
رسول اکرم ٘ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سچائی کے ساتھ معاملہ کرنے والا تاجر قیامت کے روزنبیوں ،صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا ۔
رب کائنات وہ عظیم الشان ہستی ہیں جو تمام کائنات کی مخلوق جس میں جن وانس ,چرند پرند ،حتیٰ کے حشرات الارض بھی شامل ہیں ان سب کے رزق کا ذمہّ لیتے ہیں۔کیا ہمیں یہ زیب دیتا ہے ک اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود رزق کے حصول کے لیے مکروفریب دھوکہ دہی ،مکاری بے ایمانی اور ملاوٹ جیسی گھٹیا اور گھنائونی شیطانی عوامل کا سہارا لیں ؟حلال مال کمانے والے کو اللہ پاک نے اپنا دوست کہا ہے ،”الکاسب حبیب اللہ..اشیائے خورونوش کے علاوہ عید الفطر کے موقع پر امیر ہو یا غریب سب کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو کم ازکم ایک عدد نیالباس اور پیروں کے لیے نئ چپل دلوائیں ۔
اس سلسلے میں دکاندار بھائ ماہ رمضان المبارک میں ہرہفتہ صرف ایک دن اپنی دکان پرخصوصی عید سیل کا اہتمام کریں تو اس طرح وہ دوسرے دکانداروں کے لیے مثال قائم کریں گے ،اور ہو سکتا ہے کہ اس عمل کو دیکھ کر دوسرے دکاندار بھی اس کار خیر کا حصہ بن جائیں ۔اس سیل کو خوبصورت نام دیے جا سکتے ہیں مثلاً ……. ” اخوت مسلمہ سیل “۔۔”رضائے الہی سیل ” ۔ “۔حصول تقویٰ سیل ” ….وغیرہ ،یہ سیل عام طور سے لگائ جانے والی دھوکہ اور بے ایمانی پر مبنی سیل نہ ہو گی بلکہ اپنے دلوں میں غریب اور نادار مسلم بہن بھائیوں کے لیے محبت اور ایثار کے جذبے سے سرشاد ہو کر اپنے رب کی رضاو خوشنودی کے حصول کی خاطر لگائ جائےگی۔
یہی عمل ہمیں سچی خوشیوں کی راہگزر تک لے جانے کا ذریعہ بنے گا ۔عزیز ساتھیوں ” تجارت اور کاروبار میں جائز اور حلال منافع کمانا غلط نہی ہے پر ناقص مال کی فروخت ، حد سے زیادہ منافع کا تقاضا ،اور ذخیرہ اندوزی ہمارے تمام جائز منافع کو بھی حرام اور نا پاک کر دیتا ہے ، اور آخرت میں کڑی سزا کے بھی حقدار بن جاتے ہیں اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کون سی روش اپناتے ہیں ۔آئیے اس رمضان ہم نئ روایات قائم کریں ، اور انسانیت کے لیے وہ اعلیٰ مثال چھوڑ جائیں جو ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بن جائے۔