آج سے پانچ سو سال قبل اسلامی جامعات پورے عالم میں علوم و فنون خصوصاً سائنس کا مرکز ہوا کرتی تھیں۔ سائنسی تعلیم کے حصول کے لئے دور دراز ممالک سے طلبہ یہاں آکر داخلہ لیا کرتے تھے اور دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ سائنس کی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے,اور غیر مسلم چاہے وہ اہل مغرب ہوں عربی زبان بولنے اور عربی میں خطوط لکھنے پر فخر محسوس کیا کرتے تھے,حتی کہ کچھ لوگ ان پر اس بابت انتقاد کرتے تھے کہ وہ آخر مسلمانوں کی زبان کا استعمال اتنا کیوں کر رہے ہیں,آخر وہ کیونکر نہ کرتے ان کا تعلم ہی عربی زبان پہ مبنی تھا,آج سے پانچ سو سال قبل پوری دنیا میں مسلم سائنٹسٹ حضرات کے ڈنکے بجتے تھے۔
مسلمانوں کا پورا نظام تعلیم اسلامی اسٹرکچر پہ مبنی تھا,اس وقت جب کوئی سائنسدان علم طب کی کوئی کتاب تصنیف کرتا تھا تو اس کی ابتدا اللہ تعالی کی حمد و ثنا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پاک سے کرتا تھا,اور اس کو پڑھتے ہوئے قاری کا علم طب کے ساتھ ساتھ اپنے عقیدے سے بھی مضبوط تعلق استوار ہوتا تھا, اگر کوئی غیر مسلم وہ کتاب پڑھ لیتا تو اس پر اسلامی تہذیب کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوجاتے تھے,اور جب کوئی دوائی بنائی جاتی تھی تو اس میں حلال و حرام کا خاص خیال رکھا جاتا تھا,بلکل ایسے ہی جب طبیب(ڈاکٹرز) علاج و معالجہ کرتے تھے تو اس دوران ان کی زبانیں ذکر الالہٰی سے تر ہوتی تھیں۔
لیکن جیسے جیسے ہم علم و تحقیق اور نئی نئی معلومات جمع کرنے سے کے بجائے جمود کا شکار ہوئے تو نتیجتا ہم انحطاط کا شکار ہوگئے اورجب کوئی قوم جمود کا شکار ہوکرانحطاط کی طرف جاتی ہے تو لازما اس پر دوسری تہذیبیں جو اس سے علم و تحقیق میں آگے ہوتی ہیں غالب آجاتی ہیں,اور جب کوئی قوم مغلوب ہوجائے تو وہ غالب قوم کے زیر اثر آجاتی اور آہستہ آہستہ وہ اپنے تہذیبی تشخص کھو دیتی ہے اور دوسری اقوام کی تہذیبوں کے اثر کو قبول کرنا شروع کردیتی ہے اور جب تک کوئی انقلابی قدم نہ اٹھایا جائے وہ مقلد ہوکر اپنی زندگی گذار دیتی ہے,جس کی واضح مثال آج ہماری حالت زار ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا میں پائے جانے والے جتنے بھی علوم و فنون ہیں وہ دو حصوں پر مبنی ہوتے ہیں ایک معلومات کا حصہ وہ ہوتا ہے جو انسان کو کائنات اور اس کی زندگی کے متعلق مختلف الزمان میں حاصل ہوتا ہے جس کے حصول میں تمام تہذیبیں مشترک ہیں,دوسرا حصہ یہ ہوتا ہے کہ قومیں اس حاصل شدہ معلومات کو اپنے اپنے ذہن اور فکر کے مطابق مرتب کرتی ہیں ,اس ترتیب سے جو نظام فکر و عمل حاصل ہو وہ ہی دراصل اس قوم کی تہذیب کہلا تا ہے,اس کی سادہ مثال کچھ یوں ہے کہ اس کائنات میں تمام انسانوں کے لئے زندگی گذارنے کے لئے ایک ہی طرح کی غذا مہیا کی گئی ہے لیکن اس غذا کو تیار کرنے اور مختلف انداز میں اس کو پکا کر کھانے کا طریقہ کار ہر ایک قوم کا دوسری قوم سے مختلف ہوتا ہے,بالکل یہی مثال علم کی ہے۔
لیکن اس علم کو اپنے اپنے اپنے نظریات کے لحاظ سے مرتب کرنے کے بعد جو نظام فکروعمل وجود میں آتا ہے وہ “تہذیب”کہلاتا ہے,پر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب مسلمان علم و تحقیق کے لحاظ سے پورے عالم میں اپنے ارتقائی دور سے گذر رہے تھے تو ان کی کامیابی کا راز صرف اورصرف اس میں تھا کہ وہ اپنی مادری زبان میں علم کے حصول کے بعد علم و تحقیق کو اسلامی نظریات کے تحت جاری رکھے ہوئے تھے لیکن جب ہم نے اس روش کو چھوڑ دیا اور صرف مقلد ہوکر رہ گئے تو ہماری زبوں حالی سب کے سامنے ہے۔
کل تک اہل مغرب ہماری تقلید کرتے تھے لیکن آج ہم ان کی تقلید کرتے ہیں,ان کی تہذیب کے سائے میں تصنیف شدہ سائنس اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہوتے ہیں,دوسرا بڑا ظلم یہ ہوتا ہے کہ سائنس اور دوسرے علوم سمجھنے اور پڑھانے کے لئے مادری زبان کے بجائے انگریزی زبان کا استعمال غالب رہتا ہے,جس کے نتیجے میں ہمیں مطلوبہ رزلٹ حاصل نہیں ہو پاتا۔آج ہی اگر ہمارے نظام تعلیم کو اسلامی طرز اور مادری زبان پہ قائم کیا جائے تو یقیناً ایک دن وہ ضرور آئے گا کہ پھر سے “ابن سینا,ابن الہیثم,جابر بن حیان,البیرونی,الفارابی”پیدا ہونا شروع ہوجائینگے.
ایران اور سعودی عرب میں انگریزی نہیں ہے بلکہ مقامی زبانوں میں ہی صدیوں سے تعلیم دی جا رہی ہے جبکہ اسلامی نظام بھی نافظ ہے وہاں تبدیلی کیوں کر نا آ سکی؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ مذھب اور سائنس الگ الگ سبجکٹس ہیں جیسے مغرب اور چین نے ثابت کر کے دکھایا ہے ؟ شکریہ
اخلاقیات کی گراوٹ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
مغرب بھی زوال پذیر ہے۔