میرے عزیز دوست جناب کامران انصاری کو 14 اپریل دوپہر 3 بج کر 15 منٹ پران کے گھر واقع ڈیفنس کراچی میں دل کا دورہ پڑا، گھر والے انہیں فوراً قریب ترین اور شہر کے انتہائی معروف اور مہنگے نجی ہسپتال لے کر پہنچے، جہاں فوری طور پر ان کے دل اور بلڈ پریشر کا علاج ہونا چاہئے تھا مگر پاکستان کے تمام ہسپتالوں میں ایک نئی وبا پھیل چکی ہے، کہ مریض کسی بھی مرض میں مبتلا ہو، ایمرجنسی کسی بھی نوعیت کی ہو، مریض کی جان کو چاہے جتنا بھی خطرہ لاحق ہو، ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کرونا ٹیسٹ کے بغیر مریض کو ہاتھ نہیں لگاتے۔
مریض کو دل کا دورہ پڑا ہو، یا انتہائی بلڈ پریشر ہو، برین ہیمرج ہو یا خطرناک ترین نمونیا، مریضوں کو جب ہسپتال لایا جاتا ہے تو اکثرنجی ہسپتالوں میں ایمرجنسی اور شعبہ بیرونی مریض بند ہے،جن ہسپتالوں میں ایمرجنسی اور او پی ڈیز کھلی بھی ہیں، ان کے پاس کرونا ٹیسٹ کی سہولت موجود نہیں لہذا وہ کہتے ہیں پہلے کرونا ٹیسٹ کروا کر لاؤ ، پھر جن ہسپتالوں میں یہ سہولت موجود ہے وہ پہلے ٹیسٹ کے چکر میں پڑے رہتے ہیں، اور اس دوران مریض تڑپ تڑپ کر یا تو ہسپتالوں کے چکر لگاتے راستے میں یا ہسپتال پہنچ کر ایمرجنسی میں جان جان آفرین کے سپرد کردیتا ہے۔
یہ نیا قاتل جسے میں قاتل کرونا پروٹوکول کہتا ہوں، میرے عزیز دوست کامران انصاری کی جان لے گیا، وہ دل کا شدید دورہ پڑنے پر کلفٹن کراچی کے ایک معروف نجی ہسپتال لائے گئے، جہاں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف نے پہلے انہیں قرنطینہ میں ڈالا اور پھر کرونا ٹیسٹ کرنے کے لئے دوڑیں لگ گئیں، اس دوران کامران انصاری کا دوران خون یا بلڈ پریشر انتہائی درجہ کو پہنچ گیا، جب اہل خانہ نے چیخ و پکار کی تو آخری لمحات میں انہیں بلڈ پریشر کم کرنے والا انجیکشن لگایا گیا مگر اس وقت تک کامران انصاری کے لئے بہت دیر ہوچکی تھی۔
کامران انصاری کوئی معمولی آدمی نہیں تھا، وہ پاکستان میں فریٹ فارورڈنگ کی صنعت کے بانیان کی فہرست میں شامل تھا، کراچی سے مشرق وسطی اور بین الاقوامی سطح پر ان کی صلاحیتوں کا لوہا مانا جاتا تھا، کراچی پاکستان سے اوائل 1990 میں اپنے کیریئر کا آغاز کرنے کے بعد 1997 میں وہ دبئی کے ایک معروف شپنگ گروپ سے منسلک ہوئے، اور پھر 2005 میں متحدہ عرب امارات سے مستقلاً پاکستان منتقل ہوئے اور یہاں ایک لاجسٹک کمپنی کی بنیاد رکھی، جس میں آج ساڑھے چار سو سے زائد افراد ملازم ہیں، وہ ایک معروف کاروباری شخصیت اور اپنے شعبہ میں انتہائی کامیاب قابل احترام سمجھے جاتے تھے۔
پاکستان انٹرنیشنل فریٹ فارورڈنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین رہے، پاکستان شپنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین رہے، وہ اپنے گروپ آف کمپنیز کے سربراہ اور کئی سماجی تنظیموں کے سرپرست تھے، معلوم نہیں گزشتہ دو تین مہینوں میں پاکستان کے نجی و سرکاری ہسپتالوں میں کرونا بیماری نے نہیں کرونا ٹیسٹنگ کے جنون کے پیدا کردہ قاتل پروٹوکول نے پاکستان کو کامران انصاری جیسے کتنے ہی باصلاحیت اور قیمتی انسانوں سے محروم کردیا ہے۔
کامران انصاری کی موت کوئی الگ تھلگ یا اپنی نوعیت کا واحد معاملہ نہیں ہے، کامران انصاری کی نماز جنازہ میں شریک ایک اور دوست نے ایسی ہی ایک المناک کہانی اپنے عزیز کی سنائی جنہیں دل کا دورہ پڑنے پر وہ نیشنل اسٹیڈیم کے قریب واقع شہر کے سب سے بڑے نجی ہسپتال لے گئے مگر وہاں بھی پہلے کرونا ٹیسٹ کرنے کے چکر میں مریض خالق حقیقی سے جا ملا۔
کامران انصاری کے جنازے سے واپسی پر گزشتہ شام کئی ٹی وی چینلز پر معروف سماجی شخیت فیصل ایدھی اور جناح ہسپتال کی سابق ایم ایس ڈاکٹر سیمی جمالی کو شہر میں نامعلوم وجوہات سے ہونے والی سیکڑوں پراسرار ہلاکتوں پر نوحہ خواں دیکھا، وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کی پریس کانفرنس میں بھی تین سے چار سو ایسی اموات کی گونج سنائی دی، ایسی ہی خبریں پڑوسی ملک بھارت سے بھی آ رہی ہیں جہاں ایک خاتون کو ہائی بلڈ پریشر کی دوا نہیں دی گئی معروف بین الاقوامی خبررساں ادارے الجزیرہ کے مطابق کرونا پروٹوکول خاتون کی موت کا سبب بنا، بروقت طبی امدادسے اس کی جان بچائی جا سکتی تھی۔
اس تناظر میں میری تمام ارباب اختیار، صوبائی و مرکزی حکومتوں، وزیراعلی و وزریر اعظم، وزیر صحت، چیف جسٹس، سماجی وسیاسی رہنماؤں، صحافتی وطبی حلقوں سے مودبانہ گزارش ہے کہ اس قتل عمد کا نوٹس لیں، کرونا یقینآ ایک مہلک وبا ہے، اس سے انسانی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسری تمام جان لیوا بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا جائے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ تمام ہسپتالوں میں تمام طبی عملہ کو ذاتی تحفظ کا مکمل سامان اور تربیت فراہم کرکے تمام ہسپتالوں اور خاص کر ایمرجنسی کو سینیٹائز کرکے او پی ڈیز اور ایمرجنسی کو مکمل بحال کیا جائے اور کسی بھی ایمرجنسی میں ہسپتال لائے گئے مریضوں کو کرونا ٹیسٹ کے چکر میں ڈالے بغیر فوری طبی امداد دی جائے، مریض کی جان بچائی جائے تو پھر کرونا ٹیسٹ بھی کیا جائے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ صرف کرونا مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کو حفاظتی سامان فراہم کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے، ہسپتال کے تمام عملے کو تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ کسی بھی بیماری میں ہنگامی طور پر ہسپتال لائے گئے مریضوں کو فوری طبی امداد بلا کرونا خوف دی جاسکے اور اس قاتل کرونا پروٹوکول سے نجات حاصل کی جائے۔