ٹرن ن ن …دروازے پر جیسے ہی بیل بجی میاں اور بچے ہم سب ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سےتکنے لگے کہ ایسے ماحول میں جب گھر میں ہی سب ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں اور دور رہنے کی کوشش کر رہے ہیں ایسے میں کون آ سکتا ہے ۔۔میاں جیسے ہی دروازہ کھولنے کے لیے اٹھنے لگے میں نے اشارے سے انہیں منع کیا کہ مبادا کہیں دروازے پران کا کوئ جگری دوست ہو اور وہ جذبات سےمغلوب ھوکر ہاتھ ملالیں یا گلے لگ جائیں اور خدانخواستہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں اس ممکنہ خطرے کے پیش نظر میں دروازے پر جا پہنچی اور تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ دروازے کو چھوئے بغیر بڑے دھیمے اور نپے تلے انداز میں پوچھا کہ کون ہے؟
انداز ایسا تھا کہ کہیں کورونا دروازے کی جھریوں سے میری آواز کی لہروں کے ساتھ مجھے ہی آکر نہ دبوچ لے۔ آنٹی میں ہوں انس۔۔۔انس۔۔میں منہ ہی منہ میں بڑبڑائ کیا کام ھے بیٹے، دل کا خوف دروازہ کھولنے پر اب بھی آمادہ نہیں تھا حالانکہ وہ بچہ ہمارے پڑوس میں رہتا تھا اور میرے بچوں سے اس کی بہت اچھی دوستی تھی ۔۔آنٹی وہ امی نے بریانی بھیجی ہے یہ لے لیں۔
کچھ اخلاق کا تقاضا اور کچھ بریانی کی خوشبو نے دروازہ کھولنے پر مجبور کرہی دیا سامنے معصوم سی مسکراہٹ کے ساتھ بچہ پلیٹ لئے منتظر تھا میں نے پلیٹ ” احتیاط” سے لیتے ھوئے شفقت سے تنبہہ کی کہ بیٹا گھر سے کیوں نکلے پھر مزاحاً بولی کہ آپ کو نہیں پتہ گلی میں کورونا گھوم رہا ھے بچہ ہنستے ھوئے بولا وہ امی نے بنائ تو آپ کے لئے بھی بھیج دی۔اچھا کہتے ہوئے میں کچن میں گئی پلیٹ خالی کی اور اچھی طرح دھوکر واپس کرتے ہوئے کہا کہ امی کو شکریہ کہنا۔ بریانی چونکہ گرم تھی اور میری معلومات کے مطابق حرارت کورونا کی موت ہے اگر کمبخت ہوا بھی تو بریانی میں ہی کہیں مر کھب گیا ہوگا لہذا میاں اور بچوں نے بریانی پر خوب ہاتھ صاف کیا اور مجھے بس برتن صاف کرنے کو ملے۔
اور پھر جیسے جیسے دن گزرتے گئے خوف اور دہشت میں مزید اضافہ ہونے لگا ٹی وی چینلز کرکٹ کی ٹی ٹوینٹی کمنٹری کی طرح کرونا سے تباہ ہونے والے ممالک کے اعدادوشمار بتانے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مشغول تھے ،خوراک کا بحران ،معیشت کا بحران یہ ہونے والا ہے، وہ ہوجائے گا بیچارے میاں جیسے جیسے چینل بدلتے ان کے چہرے کا رنگ بھی بدلنے لگتا۔
لاک ڈاؤن کا آٹھواں روز تھا اور ان آٹھہ دنوں میں لگا کے پرانا زمانہ واپس آگیا ہے بیسیوں رشتے داروں کے فون آچکے تھے حیرت تو مجھے تب ہوئ جب میری خالا کا خیریت کے لئے فون آیا جن سے مصروفیت کے سبب سالوں بات نہیں ھوتی تھی اور تو اور محلے میں سے روز کسی نہ کسی پڑوسی کے گھر سے کوئی نہ کوئی پکوان آنے لگا شام ڈھلتے ہی بچے اور مرد حضرات اپنی چھتوں پر دکھائ دینے لگے مسجدیں کیا بند ہوئیں عبادتیں بڑھ گئیں لوگ گھروں میں روٹھے رب کو منانے لگے، مہنگائی میں پسی عوام نے اپنے غریب بھائیوں کےلیے راشن کے ڈھیر لگا دیے۔
واہ کورونا تّو توبڑا ہی میسنا نکلا پل کے پل میں تونے دلوں سے ساری کدورتیں نفرتیں مٹاکر انکی جگہ محبتیں اور احساس بھر دیا۔کل میاں نے چائے پی کر کپ خود ہی دھو کر رکھ دیا حیران ہونے پر کہنے لگے ارے تو کیا ہوا شہر بند ہے مگر تمہارا کام تو بڑھ گیا ہے نا۔انھیں نہیں پتہ یہ کہہ کر انہوں نے میرا کتنا دل بڑھا دیا۔
ایک طرف میڈیا کی چیخ چنگھاڑ ،ناقص انتظامات کے سبب افرا تفری اور ایک دوسرے سے دست و گریباں منہ سے جھاگ اڑاتے اولوالامر،جوایسےنازک موقع پر بھی سمیٹنے کا کوئ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیرہے تو دوسری طرف حقیقی زندگی کی طرف سبک قدم بڑھاتی انسانیت۔ہم دعاؤں میں کہتے تھے نا کہ ! رب ہم بے بس ہیں ہمیں ہاتھ پکڑ کے اپنے راستے پر چلا دے تو بس اس نے ہاتھ پکڑ کر اپنے رستے پر لا کھڑا کیا ہے خوف کی جگہ آہستہ آہستہ اطمینان نے لے لی ہے اور اب بات سمجھ میں آنے لگی ہے۔
کورونا کسی کے لئے ایک آفت اور مصیبت صحیح مگر ہم جیسوں کو وہ سکھانے آیا ہےجو ہم بھول گئے تھے میرے رب کی مشیت بھی نرالی اس کے سمجھانے کا انداز بھی نرالا ۔ایک حقیر نظر نہ آنے والا کیڑا انہیں بھی سزا دے گا جو سزا کے مستحق ہونگے اور انہیں بھی راہ راست دکھائے گا جو بھٹک گئے ہیں۔ سوچوں کی یلغار جاری تھی کہ میاں کی ایک زوردار چھینک نے یہ تسلسل توڑ دیا اور میں انہیں گھورنے لگی وہ ناک صاف کرتے ہوئے بغور میری مشکوک نظروں کا جائزہ لینے لگے پھر ڈپٹ کر بولے کے ایسے کیا دیکھ رہی ہو کچھ نہیں ہوا مجھے بارش کا اثر ہے جاؤ ادرک کا قہوہ بنا کر لاؤ اور میں شکر مناتی ہوئی وہاں سے کھسک گئی کہ کہیں ان کا نزلہ مجھ پر ہی نا گر جائے۔