کر کر کرنا.کرووو..نانا….ارے کیا لکھ رہے ہو بیچ میں واؤ بھی لگاؤ وائرس کے نام میں واؤ بھی ہے کو رونا۔
ارے امی دو منٹ رکیۓ تمام دوست کمنٹس میں واؤ ہی لکھیں گے دیکھ لیجئے گا۔ اور چند ہی سیکنڈز بعد کمنٹس میں واؤ واؤ کے میسج لگاتار آنے لگے پھر ایموجی اور مسکراتے کارٹونز الگ طریقوں کے شروع ہوئے. یوتھ وال پر تفریح کے دیوانے سارے پروانے منڈلارہے تھے شہادت کی انگلی حرکت میں آئی نیچے سے اوپر جانے کا اشارہ دیا اور اسکرین پر نیا کھیل نمودار ہوگیا چھوٹا سا ویڈیوکلپ تھا ! کمنٹیٹر کمنٹری کے انداز میں تیز تیز بول رہے تھے منظر دیکھ کر یوتھ کے منہ سے زوردار قہقہہ ابلا ہندوستان کے کسی علاقے کا منظر تھا پولیس روڈ پر تیزی سے بھاگتے عوام کو بال کی طرح پکڑنے کے لیے ادھر ادھر بھاگ رہی تھی۔
عوامی بندہ بال کی طرح لڑک کر ادھر ادھر بھاگ رہا تھا کورونا کے زیر سایہ ملک کے مظلوم عوام کے اس
روئے پر آپ روئیں افسوس کریں یا ترس کھائیں جو مرضی کریں یوتھ قہقہ مار کر ہنس رہی تھی۔شہادت کی انگلی پھر حرکت میں آئی نیچے سے اوپر جانے کا حکم دیا اور منظر بدل گیا مردانہ آواز دہائی دے رہی تھی وزیراعظم صاحب کورنٹائن ختم کریں باہر پولیس مارتی ہے گھر میں بیگم مارتی ھے۔ خاندان کی اکائی پر تیزاب کے مانند برستے جملے جوانوں کو خاندان سازی کی سنت سے کاٹنے پر مستعد تھے شہادت کی انگلی پھر حرکت میں آگئی کورونا سے ڈریے نہیں لڑئیے روزانہ چند دانہ کلونجی لیجیے۔
اگلا منظر دس سالہ معصوم سی بچی بستر پر لیٹی گلا پھاڑ پھاڑ کر رو رہی تھی گلے پر ہاتھ مار رہی تھی کمرہ خالی اور دور سے آواز آ رہی تھی بیٹا درود شریف پڑھیں درود شریف پڑھیں پھر مردانہ آواز آئی میں ڈاکٹر کو فون کر رہا ہوں بس بس بیٹا منظر پرطاری خوف نے دل ایک دم جکڑ لیا سانس بھنچتی محسوس ہونے لگی اور بمشکل تین سیکنڈ کے اس منظر نے دل نظر اور دماغ کو اپنے شکنجے میں کس لیے خوف کا شکنجہ۔
شہادت کی انگلی جھٹ آگے بڑھیں اور منظر بدل دیا اگلا منظر ایک ویڈیو ہی تھی بیک گراؤنڈ میں انڈین گانا چل رہا تھا اور ایک نوجوان چھت پر خود ہی باؤلنگ اور خود ہی بیٹنگ خود ہی فیلڈنگ کر رہا تھا۔۔اکیلے ہیں۔۔ اکیلے ہیں۔۔ کہ الفاظ گونج رہے تھے وہ جو ایک سیکنڈ پہلے کورونا کا خوف چھایا تھا اب اکیلے ہیں کی مستیوں کو دیکھ کر مسکراہٹ میں بدل گیا تھا۔احساس اور فکر کے جذبات، اور خوشی کا لمحہ، یا خوف، سب بے اثر ہوچکا تھا۔
مذاق کس وقت کیا جانا چاہیے اور کس بات پر مذاق کیا جائے نہ معلوم تھا ، خوف کس چیز پر کھانا چاہیے نا معلوم تھا ، عبرت کب لینی ہے نہ معلوم تھا ، نصیحت کب جمع رکھنی ہے نہ معلوم تھا ،معلومات کے ملغوبے نے انسانی نفسیات کو بے اثر بنا دیا ہے قاعدہ قانون ضابطہ اخلاق کسی چیز میں وزن نہیں رہا اور بے وزنی کے اس سیلاب نے انسانی کردار کو بے روح اور اعمال کو بے وزن کر کے حال اور مستقبل کو خاک میں ملانے کا سامان تیار کر دیا ہے۔