۱۹۹۶ میں تحریک انصاف کا قیام عمل میں آیا،اس وقت پاکستان میں دو پارٹیوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکمرانی کا دور تھا ،کبھی مسلم لیگ ن اور کبھی پیپلز پارٹی ،باری باری حکومت چل رہی تھی،عوام ان دونوں پارٹیوں کی طرزحکمرانی سے نالاں تھے، اس لیے عوام کو عمران خان کے نئے خیالات اور نعروں نے اپنی جانب متوجہ کرنا شروع کر دیا ،ظاہر ہے چمن میں دیدہ ور پیدا ہوتے ہوتے دیر تو لگ جاتی ہے،بہرحال آہستہ آہستہ عمران خان کی باتیں لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے لگیں،خاص طر پر عمران خان کی یہ بات کہ پاکستان کا اصل المیہ یہ ہے کہ یہاں طاقتور کا احتساب نہیں ہوتا ،جب تحریک انصاف کی حکومت آئے گی تو ملک میں پہلی مرتبہ طاقتور کا بھی احتساب ہوا کرے گا۔
اس بات نے اور تحریک انصاف کے کرپشن کے خلاف اور نعروں اور غریب کی زندگی بدلنے کے نعروں ننے عوام کو اپنی جانب مائل کرنا شروع کردیا ،عوام نے عمران خان کو اپنا حقیقی نجات دہندہ تصور کرتے ہوئے،ان سے بہت ساری امیدیں وابستہ کر لیں ،کئی تجزیہ نگار اس وقت یہ کہا کرتے تھے کہ عمران خان کو اتنے بلندوبانگ دعوے نہیں کرنے چاہییں کہ کل کو انھیں اپنے وعدوں اور دعووں کو پورا کرنا بہت محال لگے،آخر کار وہ وقت آگیا اور دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں تحریک انصاف کی حکومت آگئی،واضح اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے وفاق ،پنجاب اور بلوچستان میں دوسری پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کو ساتھ ملانا پڑا،اس موقع پر جہانگیر ترین کا کردار نمایاں تھا جنھوں نے بہت سے لوگوں کو ساتھ ملا کر عمران خان کے لیے حکومت سازی کو آسان کر دیا،عمران خان پر ایک تنقید شروع سے ہو رہی تھی کہ ان کا نعرہ کرپشن کے خلاف تھا۔
لیکن ان کی پارٹی میں اور اتحادیوں میں بہت سے لوگ ایسے آگئے کہ جو اپنے وقت میں کرپشن کے چمپئین رہے،لیکن شائد اس کے بغیر عمران خان کا اقتدار میں آنا مشکل تھا اس لیے ان کو ہر طرح کے لوگوں کو ساتھ ملانا پڑا،ان میں بہت سے چڑھتے سورج کے پجاری بھی تھے،جیسے تیسے کر کے ملک میں عمران خان کی حکومت آگئی اور پھر وہی ہوا کہ جس کا ڈر تھا اور جس کی نشاندہی پہلے تجزیہ نگار کر چکے تھے اور آہستہ آہستہ لوگ یہ سوچنے لگے کہ عمران خان شاید گفتار کے غازی ہیں اور خاص طور پر تیزی سے بڑھنے والی مہنگائی نے عوام کا جینا دو بھر کردیا ،اوپر سے وزراء بھی اپنی گفتگو اورمایوس کن کارکردگی سے عمران خان کے لیے مشکلات پیدا کرنے لگے۔
بار بار کابینہ میں ردوبدل ہونے لگا،وزراء سے زیادہ تعداد مشیران کی ہو گئی اور بہت سے غیر منتخب اور الیکشن میں ہارے ہوئے لوگ کابینہ میں آگئے لیکن حکومتی کارکردگی میں کوئی بہتری پیدا نہ ہوئی اور حکومت کے لیے ایک بڑی مشکل اس وقت پیدا ہوئی جب ملک میں چینی اور آٹے کا بحران پیدا ہوگیا،یہ بحران پورے ملک میں تھا اور اس وقت وفاق اور صوبے اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے رہے،بہرحال عمران خان نے اس بحران کی انکوائری ایف آئی اے سے کروانے کا اعلان کیا اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے کا وعدہ کیا ،چند دن پہلے ہی بحران کی رپورٹ سامنے آگئی ،جس سے اقتدار کے ایوانوں میں ایک تہلکہ مچ گیا کیوں کہ اس میں بڑے بڑے ایسے پردہ نشینوں کے نام تھے جن کا تعلق حکومت سے تھا۔
جن میں جہانگیر ترین جنہیں اپوزیشن کی جانب سے ڈپٹی وزیراعظم کہا جاتا تھا،وفاقی وزیر خسرو بختیار اور حکومت کے اتحادی مونس الٰہی بھی شامل تھے،یاد رہے کہ جب مشرف اور ق لیگ کی حکومت تھی تو اس وقت بھی یہی لوگ اقتدار کے ایوانوں میں موجود تھے ،حکومت خود احتسابی کا نعرہ بلند کرتے ہوئے رپورٹ عام کرنے کا کریڈٹ لینے لگی اور بعض حلقوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت رپورٹ چھپانا چاہتی تھی لیکن اس کو دبائو پر یہ رپورٹ جاری کرنا پڑی،بہر حال رپورٹ پر جہانگی ترین کا شدید ردعمل سامنے آیا اور انہوں نے اس کو وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی سازش قرار دیا ،راجہ ریاض کے جہانگیر ترین کے حق میں بیانات نے ثابت کیا کہ تحریک انصاف میں اختلافات موجود ہیں۔
ق لیگ تو فی الحال خاموش ہے بہر حال پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری نے استعفیٰ دے دیا،حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچنے کے بعد وفاقی کابینہ میں ردوبدل کیا گیا،ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ پچیس اپریل کو فرانزک رپورٹ آنے کے بعد ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا،حکومت کے ایک اقدام سے پھر تنقید شروع ہو گئی کہ وفاقی وزیر خسرو بختیار کو عہدے سے ہٹانے کی بجائے،ان کی وزارت تبدیل کر دی گئی،اس سے عمران خان کی وہ باتیں یاد آنے لگیں کہ دوسری قومیں اسی لیے ترقی یافتہ ہو گئیں کہ وہاں الزام لگنے پر وزراء کو استعفیٰ دینا پڑتا ہے،عمران خان کو اپنے اس نعرے کو یاد رکھنا چاہیے تھا ،خسرو بختیار کو دوسری وزارت دینے سے اب یہ خود احتسابی کہیں خود فریبی نہ بن جائے۔۔۔
میرا یادگار کالم