یہ سچ ہے کہ آج یہ وقت آگیاہے کہ دنیا پر بے لگام کروناوائر س اور بھوک کا راج ہے۔ ناگہانی کرونا وبانے کہیں بغیر گولی چلائے اور ایٹم بم گرائے دنیا کو اُلٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے ۔ دنیا کامعاشی اقتصادی ،مذہبی، سماجی ، اخلاقی ، سیاسی اور جنگی طاقت کا برج چند ہی ماہ میں دیکھتے ہی دیکھتے زمین کی دھول چاٹنے کو ہے، تمام اِنسانی رشتے ایک دوسرے سے ڈررہے ہیں۔اِنسان ، اِنسان سے دوررہنے اور بھاگنے میں اپنی عافیت جان رہاہے، یہ کیسا عبرت کا مقام ہے ؟کہ صدیوں سے زمانوں، تہذیوں کے کیلنڈروں اور گھڑیوں کی قید سے آزاد زمین ِ خدا پر گردن تان کر اور سینہ پھولا کر اکڑ کرچلنے والا اِنسان کرونا وائرس سے خوفزدہ ہوکراپنے ہی بنائے ہوئے گھرکے کمرے میں قید ہوگیا ہے ۔
موجودہ حالات میں اِس نقطے پر دنیا کا ہر شخص متفق دِکھائی دیتا ہے کہ آج عالمی آفت سے وہی بچارہے گا؛جو تمام سماجی رابطے منقطع یا توڑ کر اپنے گھروں میں خود کو الگ تھلک کرکے آئسولیٹ یا آئسولینشن میں کرلے گا ۔عالمی آفت و آزمائش کروناوائرس سے چارسو نفسانفسی کا عالم ہے ۔اللہ کی بجائے امریکا کو سُپر طاقت ماننے والے دنیا کے بہت سے یورپی اور ایشیائی ممالک اپنی معیشت اور سماجی رواج و رابطوں کو قائم نہیں رکھ پارہے ہیں۔عرض کہ کروناوبا نے امیرو غریب ، طاقتور اور کمزور میں فرق ختم کرکے سب کو لاچارگی اور بے سی کی ایک صف میں لا کھڑا کیا ہے۔
واضح طور پر نظر آرہاہے کہ امریکا سے لے کر پاکستان تک کرونا وائرس کے سائے تلے بھوک و افلاس کا نہ رکنے والا تباہ کُن طوفان پروان چڑھنے کو ہے۔ناگہانی وبا سے بلکتی سسکتی اِنسانیت قابلِ رحم درجے تک پہنچ چکی ہے ۔جو چیخ چیخ کرعالمی آفت کروناوائرس سے فریاد کررہی ہے کہ ’’خدارا..!! اَب کچھ تو ہم پر ترس کھاؤکروناہم بہت کمزور ہیں ‘‘۔آج سارے اِنسانی حربے اور چالیں کروناوبا کے سامنے بے بس اور صفرہو گئے ہیں۔ایسے میں اگرعالمی سطح پر کرونا وائر س کی ناگہانی وبا کی روک تھام کے لئے دیرپاحکمتِ عملی وضع نہ کی گئی تو پھر دنیا کا کرونا وائرس اور بھوک اور تنگ دستی کے شکنجے سے چھٹکارہ پانا بہت مشکل ہوجائے گا۔
آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ پوری دنیا کو سنجیدگی سے کرونا وائرس سے پیداہونے والی خطرناک ترین اموات اور بھوک و افلاس کے بڑھتی صُورتِ حال کو کنٹرول کرنے کے لئے اپنا مثبت کردار اداکرنا ہوگا ۔ورنہ؟ سِوائے کفِ افسوس کے کسی کے دامن میں کچھ نہیں رہے گا۔اِس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ بیشک! کرونا وائرس نے دولت کی ہوس میں مبتلا دنیاکے اِنسانوں کودولت کی بے بسی کا چہرہ بھی دِکھا کر سمجھا دیاہے کہ جس دولت سے امیر اِنسان کمزور اِنسانوں کاسرکاٹ کر اپنی ترقی اور خوشحالی کے مینار کھڑے کیا کرتے تھے۔ آج اِن کی دولت اور ترقی بھی کرونا کی وبا کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔
اِن لمحات میں اگر کوئی عمل کرونا وائر س کی وبا سے بچاسکتا ہے تو وہ خالقِ کائنات اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوکر گریہ و زاری سے ا پنے گناہوں کی معافی اور استغفارکے ساتھ دعامانگنے کا عمل ہی ہوسکتا ہے؛ جو کرونا وائرس کی وبا سے بچاسکتاہے۔ ورنہ؟آج کوئی جتنابھی دولت مند اِنسان اور ترقی یافتہ یا ترقی پذیر مُلک کیوں نہ ہو؟کوئی چاہئے جتنی بھی دولت اور طاقت کا استعمال کرلے پھروہ سوچے کہ اِس طرح عالمی آفت سے بچ جائے گا؛ تو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ کرونا وبا کے سامنے اِنسانوں کی دولت اور طاقت بے توقیرہوکررہ گئی ہے۔
یاد رہے کہ آج دولت کی ’’د‘‘ کی بجائے دعاکی ’’ د‘‘کا سہارالیا جائے ۔ اپنے اور دوسروں کی سلامتی اور بقاء کے لئے ہر حال میں دُعاؤں کا اہتمام کیا جائے ۔ صرف اور صرف سُپر طاقت اللہ رب العزت کی ہی ذات پاک کو تسلیم کیا جائے۔ تو میرا ایمان ہے کہ کرونا وائرس کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ناصرف یہ بل کہ آئندہ کوئی عالمی آفت پھر کبھی نہیں آپائے گی۔آج ہمیں کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنے کی بات کرنے کی بجائے یہ زبانِ زدِ عام کرناہوگا کہ ’’ ہمیں کرونا سے ڈرنا ہے اور بچنا ہے‘‘اِس سے پریشان حال اِنسانیت میں مثبت رجحان پروان چڑھے گا اور عوام کولڑنے والی منفی سوچ اور منفی عمل سے روکا جاسکتاہے ۔
یقیناآج امریکا سمیت وطن عزیز میں بھی کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ہاں البتہ! امریکا اور یورپی ممالک کی نسبت ہمارے یہاں کرونا سے ہونے والی اموات اور مریضوں کی تعداد قدرے کم ہیں۔ مگر جتنی بھی ہیں۔اِن میں دن گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتاجارہاہے۔ جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔جیسا کہ اطباء اور کرونا وائرس سے پیداہونے والی گھمبیرہوتی صُورتِ حال پر نظررکھنے والی شخصیات کی جانب سے مسلسل یہ خیال کیا جارہاہے کہ آئندہ دِنوں میں وطنِ عزیز میں بھی مریضوں اور اموات کی تعداد توقعات سے بھی کہیں زیادہ بڑھ سکتی ہے۔
اگر آنے والے دِنوں میں واقعی ایسا ہوگیاجیسا کہ کہاجارہاہے تو ہمارے یہاں کئی اقسام کے نہ ختم ہونے والے گھمبیر مسائل پیداہوجائیں گے۔ہمیں جن سے نجات پانے میں کئی سال لگ جائیں گے۔ ایسے میں ہماری لنگڑی لولی، رگڑتی، سرکتی اور سسکتی ہوئی ترقی اور خوشحالی کا رگِ گل اور مکڑی کے جال سے بھی زیادہ کمزورتصورکرچی کرچی ہوجائے گا۔ہم پھر وہیں چلے جائیں گے۔ جہاں 72سال پہلے کھڑے تھے۔ خاکم ِ بدہن اور قبل اَز گفت، اللہ نہ کرے کہ وطنِ عزیز میں ایسا کوئی وقت آئے ۔قبل اَزوقت لازمی ہے کہ وفاقی اور صُوبائی حکومتوں کو آنے والے دِنوں میں کروناوائرس سے پیدا ہونے والی خطرناک صُورتِ حال کا ادراک کرتے ہوئے۔ ایک پلیٹ فارم پر آناپڑے گا۔ایسی جامع حکمت عملی وضع کرنی پڑے گی کہ جس کی بنیاد پر وفاق اور صوبے عالمی آفت کا مل کر مقابلہ کریں اِس طرح ہم یقینی طور پر اپنی بقاء و سا لمیت اور خود مختاری کو قائم رکھ سکیں گے۔
اگرچہ،امریکا اور یورپی ممالک کی کرونا وبا سے پیدا گھمبیر صُورتِ حال ہمارے سامنے ہے مگر افسوس کامقام ہے کہ آج بھی وفاق اور صوبوں کے درمیان میں مکمل اور جزوی لاک ڈائوں کے حوالوں سے سقم باقی ہے۔ جو اپنے اندر بہت سے تحفظات اور سوالات لئے ہوئے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے رابطے میں فقدان ،میں نہ مانو،مرغے کی ایک ٹانگ کی ضد کا واضح اشارہ دے رہاہے۔ اگر ایسا ہی رہاتو وفاق اور
صوبے کروناوائرس کے موت کے زہریلے شکنجے کے سامنے عوام کو پھینک کر ’’ نیا پاکستان و تبدیلی آئی نہیں آگئی ہے‘‘ اور’’ زندہ ہے بھٹوزندہ ہے‘‘جیسے نعرے لگاکر اپنی سیاست کو چمکائیں گے ۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں بالخصوص صوبہ سندھ اور وفاق کی آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے معصوم شہری ناگہانی عالمی آفت کروناوائرس کی وباکا ترنوالہ بن کر آغوش قبر میں منوں مٹی تلے جا کرسوتے رہیں گے اور یہ..!!