ہماری ایک ساتھی فاطمہ عمیر نے کیا خوب عکاسی کی ہے جو میرے بھی دل کی کیفیت ہے لیکن اللہ کی شان اچھے جذبے ہمیشہ سانجھی ہوتے ہیں ۔ مجھے بھی مسلسل یہی اپنوں سے غیروں سے مسلمانوں سے ، لوگوں سے سب سے یہی شکایت ہے کہ ظلم کے خلاف کیوں نہیں کھڑے ہوتے نہ اپنے حصے کا کام کرتے ہیں ؟ میں نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ عام گھروں میں خاندانی معاملات میں بھی لوگ حق کا ساتھ نہیں دیتے اور ظالم کو نہیں روکتے اور ظلم ہوتا دیکھتے رہتے ہیں ۔
مطلبی تماشائی ہو نا خود غرضی ہے بلکہ شاید منافقت ہی ہے ۔ اللہ معاف فرمائے ہماری کوتاہیوں کو جو کھل کر سامنے آرہی ہیں ۔ ایک عرصے سے ظلم کسی نہ کسی صورت میں چلا آرہا ہے اور مسلمان جنہیں اللہ نے ایمان کی دولت دے کربے خوف بنا دیا ہے ،وہ بھی ڈٹ کر ظلم کا مقابلہ نہیں کررہے تھے ،ظالم کا ہاتھ نہیں پکڑ رہے تھے ،طبقات میں بٹے ہوئے تھے ۔ مذہبی اختلاف تو کہیں سیاسی اختلاف ، کہیں ذاتی اختلاف تو کہیں گروہی اختلاف ، اوپر سے بے ضمیر سوئے ہوئے میڈیا کے مارے لوگ۔
مغربی تہذیب کے دلدادا دنیا میں اتنے کھوئے ہوئے کہ سمجھو پوری طرح سوئے ہوئے کیونکہ احساس سے عاری وھن کا شکار ہیں ۔ ہمیں دنیا سے ہونے والے ظلموں سے کوئی سروکار نہیں ۔ کہاں کہاں مسلمان رل رہے ہیں ۔ کیمیائی جان لیوا ہتھیار انسانوں کو تباہ و برباد کر رہے ہیں ۔ کہیں بمباری کی بھینٹ چڑھے ہیں اور مسلمان خاموش تماشائی پھر یہی نہیں روہنگیا میں تو اللہ کی پناہ کیا کچھ نہ ہوا دنیا تماشائی پھر کشمیر ہی کو دیکھ لیں دن دو دن نہیں ، سات مہینے ہونے کو آئے ظالموں نے دنیا کی بڑی جیل بنا کر رکھ دی ہے ۔
جیل سے بھی بدتر حالات پوری دنیا سے رابطہ توڑ کر ہر طرح کی اذیتیں دیکر قتل وغارت کا بازار گرم کر رکھا ہے اور پڑوسی اڑوسی بھی صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا کر رہے ہیں اور صحیح معنوں میں وہ حق نہیں نبھا رہے جو نبھانا چاہئے ۔ بے حسی کی انتہا ہے نہ پورے ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے کشمیر کیلئے انڈیا کے مسلمان جب چپ رہے تو خود نشانہ بنیں اور اب بے حسی کی پوری دنیا منہ بولتی تصویر بنی ہے کیونکہ فاطمہ عمیر صاحبہ نے سچ ہی تو کہا ہے کہ؎
تخیل میں ایک تصویر بن رہی ہے یہ دنیا رفتہ رفتہ کشمیر بن رہی ہے
ظا ہر ہے ہم خاموش تماشائی ، اپنے خالق کو مان رہے ہیں لیکن خالق کی نہیں مان رہے تھے بلکہ بسا اوقات ڈھٹائی بھی دکھا رہے تھے۔ کہیں بے حیائی فحاشی ، بدنظمی اور حق تلفی سے تو کہیں انتظامی ، انتقامی کاروائیوں میں پھنسے ہوئے۔ گروہ بندی بھی تو ایک شر ہے جسے ہم خوب چمکا رہے ہیں ۔ اس طرح قانون الٰہی کی حدود کی خلاف ورزی بھی کر رہے ہیں تو کہیں عورت کی تذلیل ، کہیں عورت خود نسوانیت کی حدود کو ماپال کرتی ہوئی معاشرے کو زوال کی طرف لے جا رہی ہے تو پھر یہ سب کیا ہے ؟ ہم کیسے لوگ ہیں کیا چاہتے ہیں ؟کیونکر زندہ ہیں ۔ ہمارا مقصد حیات کیا تھا ؟ اور ہم کیا کر رہے ہیں کیا ہم زندہ ہیں ؟ کیا ہم جی رہے ہیں؟… نہیں نہیں ؎
سانسوں کے سلسلے کو نہ دو زندگی کا نام جینے کے باوجود بھی کچھ لوگ مرگئے
مجھے لگتا ہے کچھ لوگ نہیں سارا میڈیا ۔ ساری دنیا سو رہی ہے ۔ معلوماتی پروگرام یا تعلیمی پروگرامز، کبھی اطلاعاتی پروگرامز ، خبرین وغیرہ دیکھئے پی ٹی وی کھولیں تو کیا ؟ اتنی درد ناک خبریں ، دنیا بھر میں پھیلا یہ مرض ، اللہ کی آزمائش ، ساری دنیا کا غم مشترک ، موت مشترک ، علاج مشترک ، سارے کا سارا مادی وسائل پر مشتمل مگر سبحان اللہ مسلمان ہوتے ہوئے ہمیں فخر بھی محسوس ہو رہا ہے اور اپنی کوتا ہیوں پر صد فیصد دکھ اور ملامت بھی ، اللہ ، رسول اور آخرت پر ایمان رکھنے والے مسلمان ، الحمد للہ اسلامی ملک میں رہتے ہوئے ہر لمحہ اللہ کی پکڑ میں ہیں جو بہت شدید ہوتی ہے ، جائزہ لیں تو ہمارے ہی قصوروں کی سزا ہے ۔
یہ ہماری ہی بے حیائی اوپر سے ڈھٹائی ہے، نا انصافی ہے ، اپنے مسلمان ساتھیوں کا ساتھ نہ دینے کی سزا ہے۔ نفسی نفسی کا عالم ہے ۔ ذرا سے نہ نظر آنے والے وائرس نے دنیا کو تہس نہس کردیا ۔ بند ہ بے گورو کفن ، بے یارو مددگار بے کسی کی موت سے ڈر رہا ہے ۔ لیکن اعمال نہیں سدھرر ہے۔ دنیا میں ہر طرف خوف کی فضا ہے ۔ مومن تو ہر وقت اللہ کے ملنے کیلئے بے چین ہوتا ہے تو وہ مومن ہوتا ہے ، کیاہم مومن ہیں؟ یا صرف کلمہ گو مسلم ! قول و عمل کا تضاد رکھنے والے نہ مسلم ہیں نہ مومن، ہمیں خود کو پہچاننے کا رب کی طاقت جان لینے کا ، زندگی کا مقصد اور اس کی مہلت کا ادراک دلایا جارہا ہے ، یہ ایک طرح کی وارننگ ہے، دھمکی ہے۔
زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جاننے اور زندگی کا حق ادا کرنے رب کا شکر اور حق ادا کرنے کا بھرپور موقع ہے ۔ آزما ئشوں اور مشکلا ت سے ہی خوشیوں کے درکھلتے ہیں ۔ جو پائیدار ہوتی ہیں ۔ آج بھی دنیا موت کو دیکھتے ہوئے کرب کو سہتے ہوئے ان مظلوم کشمیروں کا انکے دکھ درد کا احساس نہیں کر رہی ۔ کیا یہ غفلت نہیں یا یہ حیوانیت نہیں ؟ لا پروائی اور انسانیت پر ظلم نہیں ؟ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے ۔ اس کی چال تمام چالوں پر بھاری ہے ۔ وہ وہاں سے پکڑتا ہے کہ بندے کو گمان بھی نہیں ہوتا ۔
اپنی طاقت اور مادی وسائل پر غرور کرنے والوں رب کی پکڑ سے ڈرو ۔ حق ادا کرو، انسان بنو کہ سدھار کا یہ موقع بھی رحمت ہے۔ اللہ تو رحیم ہے وہ اپنا رحم ضرور کرے گا کر رہا ہے مگر ڈرو ان لوگوں سے ، اس مخلوق سے جو تم سے وابستہ ہیں مگر تم ان کا حق ادا نہیں کر رہے بلکہ ان پر ظلم کر رہے ہو جو جبر کر رہے ہو ۔ کہیں رستوں کی پامالی تو کہیں اخلاقی بگاڑ ، معاشرے کو جہنم بنائے ہوئے ہیں تو مشکل کی اس گھڑی میں ہمیں اپنے مرکز پر واپس آنا ہے ۔ اپنی زندگی کے مقصد کو جاننے کیلئے اللہ سے رجوع کرنا ہے۔ کتاب الٰہی اور سنت نبویؐ پر کاربند رہنا ہے ۔ غفلت سے نکل کر اپنے گناہوںکا اعتراف کرتے ہوئے مستقل استغفار اور توبہ کی روش اپنانی ہے ۔
مسلسل دعائوںسے ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹیں صدقہ خیرات کرتے ایک پکے سچے مسلمان ہونے کا ثبوت دینا ہے ۔ صبر شکر سے مشکل کی اس گھڑی میں خیر سگالی کے جذبے کے ساتھ سب کی مدد کرتے ہوئے اللہ سے ہر دم دعا کرتے ہوئے احتیاط کے ساتھ اپنے کاموں کو مستقل بنیادوں پر تادم حیات کرتے رہنا ہے۔ میرا رب بڑا کریم ہے رحیم ہے اسکا رحم اسکے غصے پر غالب ہے ۔
وہ مومن کو اپنی مخلوق کو بہت مواقع دے رہا ہے سدھار کے تاکہ اسے اسکی تڑپ، طلب اور لگن کے مطابق رتبے عطا فرمائے ۔ ہمیں سدھرنے سنورنے اور پاکیزہ ہونا ہے ۔ قول و عمل میں ایک ہونا ہے نیک ہونا ہے ۔ برائی سے رشتہ توڑنا ہے اس دعا کے ساتھ کہ ؎
اے رب مجھے اپنی راہ پہ ڈال دے
کہ زمانہ میری مثال دے میری آخرت کو سنوار دے