کرونا وائرس کی اتنے بڑے پیمانے پر تباہ کاریاں کسی بھیانک خواب کی طرح دکھائ دے رہی ہیں ۔چشم زدن میں دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن گئے ،سیکڑوں کی تعداد میں متاثر ہیں ۔حیرت انگیز طور ترقی یافتہ اور سپر پاورز ممالک ایک ننھے سے خوردبینی جرثومے کے سامنے بے بس اور لا چار اور غیبی طاقت کے شکنجے میں کسے ہوئے ہیں ۔وہی مخلوق خدا جو اپنے پیدا کرنے والے رازق کو فراموش کر کے”لادینیت “ اور” الحاد” کا شکار ہو چکی تھی اور تسخیر کائنات کے بلند بانگ دعوے کررہی تھی ،اپنی تمام تر ٹیکنالوجی اور ترقی کی شکست کے بعد ہم سب کے سامنے وہ رب کائنات سے گڑگڑا ، گڑگڑا کر رحم اور مدد کی بھیک مانگ رہی ہیں ۔
آج جس طرح پوری دنیا خوف ، بیماری ، بھوک اور تباہی کے سامنے بے بس دکھائ دیتی ہے ، ایسے کئ دور انسانی تہذیبوں پر گزر چکے ہیں ، جن کی واضح تفصیلات ہمیں قرآن پاک میں ملتی ہیں ۔لیکن اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتنی شدید سرزنش اور پکڑ کے باوجود بھی حق کی پہچان اور حق پر ایمان لانے والے چند ہی گروہ تھے ۔ ایسا نہیں ہوا کہ طوفان نوح کے بعد کی تمام آئندہ آنے والی نسلیں مسلم ہو گئیں ، یہی صورت حال ہم فرعون مصر کے غرق ہونے کے بعد،اور عاد ، ثمود اور مدین کی بربادی کے بعد بھی دیکھتے ہیں ۔
آج بنی نوع انسان کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے ۔وہ نفس پرستی اور مادہ پرستی میں اسقدر ڈوب چکا ہے کہ وہ کسی طور بھی ان سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ۔سوائے حضرت محمد ﷺ کے تمام پیغمبروں کی تعلیمات کو فراموش کر دیا گیا ہے ۔مادہ پرستی کی وجہ سے آخرت کا تصور بھی دھندلا گیا ہے ، اور سب کچھ وہ اسی دنیا میں حاصل کرنا ہی کامیابی تصور کرنے لگے ہیں ۔اسی لیئے آج جب خطرناک وباء نے حملہ کیا تو زندگی کھو دینے کا خوف ان کےاعصاب پر اسقدر طاری ہے کہ کھربوں روپے لگا کر جلد از جلد اپنی جان کو بچا لینے کی تگ و دو میں ہلکان ہو ۓ جا رہے ہیں ۔ مغربی سائنسدان اس ویکسین کی تیاری میں اگر کسی “مردارخور “ یا نجس جانور کے اجزاء شامل کریں تو ہم مسلمان بھی اسے استعمال کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ہمارے پاس اپنے ریسرچ سینٹر ہیں نہ ہی اتنا پیسہ کہ اتنی مہنگی ریسرچ کر یں ۔
یوں تو انسان اللہ کی بنائ ایک معمولی سی مخلوق ہے ،جسے تیز دھوپ برداشت نہیں ہوتی ، نرم بستر کے بغیر نیند نہیں آتی ، کچا کھا نا ہضم نہیں ہوتا ، پانی کے بغیر جینا محال ہے ، پر نا شکری اور خود پرستی کا یہ حال ہے کہ کائنات کی کروڑوں نعمتوں سے تو فیض یاب ہو رہا ہے پر انہیں فراہم کرنے والے رب کو ہی فراموش کر دیا ۔اور یہی نہی احسان فراموش انسان نے رب کے وجود کو تسلیم کرنےسے ہی انکار کر دیا ۔خود ساختہ سائنسی توجیہات اور تحقیقا ت کے بل بوتے پر نظام کائنات کی تخلیق اور بقا کے بھونڈے جواز بنا ڈالے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مکمل مربوط نظام ِ کائنات پر غور کرنے کے بعدبھی خود کو دانا اور جینیٗس کہلا نے والے سائنسدان خدا کے وجود سے کیسے انکار کر سکتے ہیں ؟
مشہور زمانہ سائنسدان نیوٹن کے قوانین حرکت ہی کا اصول ہے “ For every action there is always an equal and opposite re “ اب بھلا ان genius سائنسدانوں سے کوئ پوچھے کہ “ کائنات کی لاتعداد کہکشائیں کیسے کسی بھی قوت کے بغیر خود سے حرکت میں ہیں ؟ کائنات کے راز جاننے کے لیئے سائنس کے پاس وہ آفاقی نظر نہیں جو اس کا احاطہ کر پائے۔تجربات کے ذریعے سائنس ہی یہ ثابت کر چکی ہے کہ انسانی ذہن اور نظر کی حد بہت محدود ہے، اگر ہم کمرے میں موجود کسی ایک چیز کو بغور دیکھ رہے ہوں تو گرد و پیش سے کسی حد تک غافل ہو جاتے ہیں۔ اکثر وبیشتر ہم عام زندگی میں اس کا مشاہدہ کرتے ہیں جب ٹیلی وژن کے کسی دلچسپ پروگرام میں منہمک ہو کر ارد گرد سے غافل ہو جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ آسمان کی وسعتوں کو ناپنے کے لیے ہمیں دیو ہیکل دوربین مثلا” ہبل “ ( Hubble ) کا سہارہ لینا پڑتا ہے ،۔اتنی محدود قوت سمع وبصر کے ساتھ ہم کیسے خود کو اس کائنات کی نا قابلُ تسخیر اور خود مختار مخلوق سمجھ سکتے ہیں ؟
جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کوئ نہ دکھائ دینی والی قوت ہے جو کائنات کے تمام اجسام بشمول سورج ، چاند ، ستارے ، اور اربوں کہکشائوں کو تھامے ہوئے ہے اور انہیں حرکت دینے کے لیےمقناطیسی کشش بھی فراہم کرتی ہے ۔ اس مادے کا نام سائنسدانوں نے Dark matter رکھ دیا ۔ حالانکہ یہ نظر نہیں آتا تو اس کا نام Invisible matter بھی رکھا جا سکتا تھا ، پر حفظ ما تقدم کے طور پر کہ کہیں ان کی یہ کھوج کائنات کی دکھائ نہ دینے والی قووتوں کی طرف دنیا کو متوجہ نہ کر دے ،۔ اور عقائد اسلامُ کا مرکز ہی دکھائ نہ دینے والی ہستیوں مثلا” اللہ پاک ، فرشتے ، جنت دوزخ ، اور ارواح وغیرہ پر مشتمل ہے تو سائنس دانوں نے نہا یت ہوشیاری سے کام لیا اور اس نادیدہ قوت کو Dark matter کا نام دے دیا ۔
سالہا سال کی تحقیقات اور کھربوں روپے کی لاگت کے باوجود آج تک سائنسدان اس مادہ کے ایک ذرے کو بھی پہنچ نہیں پائے اور حیرت کے سمندر میں غلطاں ہیں ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے چاند سورج ستاروں اور رات اور دن کے آنے جانے کو عقل والوں کے لیے اپنی بڑی نشانیاں کہا اور ان پر غور کرنے کو کہا ۔اگر آج ہم مسلمان اپنی اس ذمہ داری کو سمجھتے تو یہ رصد گاہیں اور بڑی بڑی خلائ دور بینیں ہم بناتے اور دنیا کو کائنات کی اصل تصویر دکھاتے جو قرآن اور حدیث کے علم کے عین مطابق ہوتی ۔ ؎
کافرکی یہ پہچان کہ آفاق میں ہےگمُ مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
اس کے علاوہ سائنس دانوں کی ہٹ دھر می اور ڈھٹائ کی دوسری بہت بڑی مثال مشہور زمانہ متنازعہ چارلس ڈارون کی “ Theory of evolution” ہے . اس تھیوری کی رو سے سب انسان کسی خورد بینی کیڑے “Ameoba” کی ارتقائ تبدیلیوں سے پہلے مچھلی پھر رینگنے والا جانور اور پھر بندر سے انسان تک کی تخلیق پر پہنچ گیا ۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس نظریےکو 1859میں پیش کیا گیا ، اور کسی مسلمان سائنسدان کے پاس اس زمانے میں اتنی قابلیت ہی نہیں تھی کہ وہ اس کفریہ نظریے کو چیلنج کرتے ۔ آج بھی یہ ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی درسی کتب میں پڑھا یا جاتا ہے ۔کالج کی لیکچرار نے ہمیں بھی طالب علمی کے زمانے میں اس نظریے کو بہت محنت اور توجہ سے پڑھایا تھا اوراسلام کے نظریہ انسانی تخلیق کے متعلق ہم سب کے ذہنوں کو مختلف قسم کے ابہام میں مبتلا کر دیا تھا ۔
حالانکہ 1933میں D.N.A کے ڈبل ہیلکس ڈھانچے کی دریافت سے سائنس یہ جان گئ تھی کہ انسانی جینز کی ترتیب اتنی زیادہ پیچیدہ ہے کہ ایک چھوٹی سی بھی تبدیلی اس کی ساخت میں نہایت مشکل ہے اور single cellکے جاندار کا multicellular جاندار بن جانا تقریباً ناممکن ہے۔ مگر چونکہ دنیا کا تمام تر تحقیقاتی کام تقریباً ایک ہزارسال سے مغرب ہی کے مرہون منت ہو رہا ہے اس لیے ہم مسلمان ان کے ہر نظریے اور ہر تحقیق کو ماننے پر مجبور ہیں ۔ ان سب عوامل سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ مغربی سائنس سے مرعوب ذہن جانتے بوجھتے اسلام دشمنی میں کبھی بھی آفاقی سچائیوں کا اعتراف نہیں کریں گے ، کیونکہ اگر انہوں نے اسلام کے بتائے انسانی تخلیق کے نظریے کو سچ مان لیا تو انہیں اس نظریے کو ہم تک پہنچانے والے پیغمبر حضرت محمد ﷺپراور ان کی لائی آسمانی کتاب پربھی یقین کرنا ہوگامگر وہ آج بھی ڈارون کے پٹے ہوئے نظریۂ انسانی ارتقاء سے چپکے ہوئے ہیں۔ انہیں پیشہ ورانہ بددیا نتی کرنا تو منظور ہے پر اسلام کی برتری انہیں ہر گز قبول نہیں ۔
دیکھیں آج 500 سال بعد اسپین کی سرزمین پر بلند ہوتی ایمان افروزاذان کی صدائیں ، دنیا کے سب سے بڑے الحادی ملک چین کی مساجد میں دعائیہ تقریبات کا ہونا ،فرانس جیسے اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے والے ملک کی بالکونیوں میں مسلم کمیونٹی کا ببانگ دہل اذان اور دعائیں کرنا یہ سب کچھ ایک زبردست قدرت اور اختیار کے مالک رب نے ہمیں دکھا دیا کہ کائنات میں حکم اور مرضی صرف اور صرف اسی کی چلے گی اور بھٹکے ہوئے انسان کو واپس اس کے مقام پر پہنچا دیا ۔ کل تک global village کی تکرار کرنے والے آج social distancing پر اصرار کر رہے ہیں ۔
آج سب کھیل تماشے ، کلب ، جم ، بازار، ناچ گانے کی پارٹیاں ، بے حیائ کے اڈے سب کے سب بند ہیں ، ہر گھر میں اللہ کا ذکر ، نماز اور قرآن پڑھا جا رہا ہے۔ چین ، جاپان ، فرانس ، اٹلی اور امریکا جیسے سوپر پاورز ممالک جن کے Think tanks نے مستقبل کی پیشگی پلاننگ کئی دہایوں تک کی تیار کر رکھی تھی، آج آنے والے اگلے لمحے کے بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہیں ۔ آج گھروں میں ریسٹرین سینٹرز (restrain center ) میں بیٹھ کر شاید بے حس اور بےضمیر انسان اس خوف ،دکھ اور قید تنہائ کو محسوس کر پائیں جس میں ایغور کے مظلوم عوام ، روہنگیاء کیمپس کے بے گناہ شہری ، کشمیر کے نہتے بے بس اور لاچار مسلمان اور درجنوں فلسطینی ، یمنی اور شامی باشندے زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں ۔
جزبۂ ایمانی رکھنے والے تو اس تمام صورتحال میں خود احتسابی ضرور کریں گے پر کفر کرنے والے کبھی بھی مشیت الہی کی حکمتوں کا ادراک نہی کر سکتے ۔ حدیث پاک ؐ ہے :”اللہ خاص لوگوں کے عمل پر عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا ، مگر جب وہ اپنے سامنے بدی کو دیکھیں اور اس کو روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود اس کو نہ روکیں تو اللہ خاص وعام سب کو مبتلائے عذاب کر دیتا ہے ۔اس حدیث کے تناظر میں ہمیں اپنا جائزہ لینا ہوگا کہ کہیں برائ کو نہ روک کر ہم بھی خدا نخواستہ عذاب الہی کے مستحق نہ ٹھہر یں ۔ اللہ ہمیں سچی توبہ کرنے اوراللہ رسول کی ھدایت کے مطابق دنیا کی زندگی گزارنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین۔
شہلا آپ نے تحقیقی مضمون لکھا ہے۔ اور اعداد و شمار کے ساتھ بہترین انداز میں لکھا۔ ماشا اللہ ۔ اللہ تعالی آپ کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ کرے، نکھار پیدا کرے۔ آمین یا رب الآلمین ۔
اچھا مضمون ہے سوچنے کی دعوت دینے والا اللہ آپ کی صلاحیتوں میں اضافہ فرماۓ آمین