دنیا بھر کو کرونا جیسی موذی وبا نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، تمام ممالک اپنے اپنے طور پر وبا کو روکنے کے لیے وسائل بروئے کار لا رہے ہیں، مگر بدبخت ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ کورونا وائریس چونکہ پاکستان میں لیٹ آیا جسکی وجہ سے ہماری قوم یہ سمجھ رہی ہے کہ یہ وبا ہم پر اثر نہیں کرے گی اور اہم نقطہ یہ ہے کہ احتیاط کی جائے، مگر آج بھی چھوٹے شہروں دیہاتوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ہاتھ ملانے ،گلے ملنے سے بالکل گریز نہیں کرتے اور نہ ہی حکومتی ہدایات ان پر اثر کر رہی ہیں۔
حکومت پاکستان جہاں ہر ادارے۔ہر مکتبہ فکر۔کے لیے سوچ رہی ہے اور پالیسیاں مرتب کر رہی ہیں وہاں انہیں علاقائی صحافیوں کی کوئی فکر نظر نہیں آ رہی ہے۔ گذشتہ دنوں وزیر اعلی پنجاب نے فرمایا کہ صحافیوں کے لیے پالیسی بن رہی ہے مگر وہ کون صحافی ہیں وہ جناب۔ٹی وی اینکر۔کالم نگار۔اداروں سے تنخواہیں اور مراعات لینے والے صحافی ہیں جو اپنے پروگرام بھی اکیلے بیٹھ کر کرتے ہیں بڑی گاڑیوں میں گھوم کر رپوٹنگ کی جاتی ہے غرضیکہ ہر طرح کی سہولت انکے لیے پہلے سے موجود ہے ۔
لاکھوں تنخواہیں اور کوٹھیوں بنگلوں میں رہنے والوں کے لیے سمری تیار ہو رہی ہے مگر ان میں سے کسی نے علاقائی صحافیوں کی بات نہیں کی اور نہ ہی ان صحافی راہنماؤں نے لب کشائی کی جو ہمارے سر دکھا کر کمیٹیوں میں شامل ہوتے ہیں اور فوائد حاصل فرماتے ہیں ۔آج علاقائی صحافی بغیر کسی حفاظتی کٹ اور سامان کے پوری قوم کو اپنے اپنے علاقوں سے با خبر رکھ رہا ہے ان میں سے کئی ایسے سفید پوش جرنلسٹ بھی ہیں جنکا مسلسل لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھرم کھل رہا ہے۔
علاقائی صحافیوں کو نہ حکومت سپورٹ کرتی ہے اور نہ کوئی ادارہ تنخواہ دیتا ہے وہ اپنے شوق کی تکمیل اور خدمت کے جذبے سے جان ہتھیلی پر رکھ کر ہر دور میں رپورٹنگ کرتے ہیں ان حالات میں جہاں پوری قوم کو وہ باخبر رکھنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں وہاں انہیں اپنے گھر اور بچوں کی بھی فکر ہے جس کے چھوٹے موٹے بزنس تھے وہ ختم ہو چکے ہیں ۔
آج علاقائی صحافیوں کی زندگیاں داؤ پر لگ چکی ہیں لیکن اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر علاقائی جرنلسٹ اپنی ذمہ داری پوری ایمانداری سے نبھا رہے ہیں جب عوام کو چاہیے تھا کہ ان فرنٹ فٹ پہ لڑنے والے علاقائی صحافیوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے اور حوصلہ افزائی کی جاتی وہیں آج بھی تنقید سب سے زیادہ علاقائی صحافیوں کے حصے میں آ رہی ہے۔
علاقائی صحافی حقائق پر مبنی رپوٹنگ کرتے ہوئے خبر لگاتا ہے تو جس کے خلاف ہو وہ جانی دشمن بن کر انکے پیچھے پڑ جاتا ہے یا پالتو غیر مہذب لوگوں سے پوسٹیں لگا کر اسکی عزت اچھالنا شروع کر دیتا ہے جبکہ اپنے کرتوت دیکھنا مناسب نہیں سمجھتا۔ آج علاقائی صحافی کسی تنخواہ،مراعات،مدد،حفاظتی کٹ کے بغیر عوام کو باخبر رکھنے کے لیے کوشاں ہے جس پر حکومت وقت کو سوچنا چاہیے کہ یہ بھی انسان ہیں انکا گناہ صرف یہ ہے کہ کسی بڑے شہر میں نہیں رہتے یا کسی بڑے ادارے کے تنخواہ دار نہیں ہیں، مگر ان لوگوں سے بڑھ کر اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔
جس طرح دیگر اداروں کے لیے پالیسی مرتب کی گئی ہے کہ دوران کام اگر کسی کی ڈیتھ ہو جاتی ہے یا کرونا کا شکار ہو جاتا ہے تو نہ صرف شہید کا رتبہ دیا جائے گا بلکہ شہید جیسی مراعات بھی دی جائیں گی ایسی ہی پالیسی علاقائی صحافیوں کے لیے بنائی جائے کیونکہ اصل میں یہ وہ صحافی ہیں جو گرہ خود سے خرچے کر کے پوری قوم کو باخبر رکھنے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔
یہاں علاقائی صحافیوں سے بھی درخواست کرونگا کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوئی کسر نہ چھوڑیں مگر اس وبا سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر کا بھی خیال رکھیں اور صحافتی اتحاد کے پلیٹ فارم سے اس آواز کو جتنا اٹھا سکتے ہیں اٹھائیں تاکہ ہر دور میں نظر انداز کیے جانے والے علاقائی صحافیوں کو بھی حکومت انسان جان کر اس ملک کا شہری اور عوامی خدمت سے بھرپور طبقہ سمجھ کر کوئی پالیسی بنانے پر مجبور ہو جائے کیونکہ سوئی ہوئی حکومتوں کو جھنجوڑ کر جگانا پڑتا ہے اور جب تک علاقائی صحافی اپنے حق کے لیے آواز نہیں اٹھائیں گے اور حکمرانوں کے ضمیروں کو جھنجوڑ کر نہیں جگائیں تب تک ہم علاقائی صحافی یونہی لاوارث بھی رہیں گے ۔
فرائض کی ادائیگی کے دوران مرنے والوں کو بھی اجنبی سمجھا جاتا رہے گا۔ پلیز جرنلسٹ گروپ اوکاڑہ قصور بہاولنگر،پاکپتن،لاہور کے پلیٹ سے اپنے حقوق کے لیے یک زبان ہو کر آواز بلند کریں اور صحافیوں کے لیے تیار ہونے والی سمری میں علاقائی صحافیوں کو بھی شامل کروا کر اپنا اور اپنے خاندان کا تحفظ کریں۔
اس بار نہیں تو پھر کبھی نہیں جناب وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب جناب وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار صاحب سے درخواست ہے کہ علاقائی صحافیوں کو انکا حق دیا جائے اور کرونا کے دوران رپورٹنگ کرتے اگر کوئی صحافی اسکا شکار ہو جاتا ہے تو اسے حکومتی سطح پر طبی سہولیات دی جائیں اور اگر شہید ہو جاتا ہے تو اسے بھی شہید کا رتبہ دیکر مراعات دی جائیں۔امید ہے سب علاقائی صحافی دوست اسے زیادہ سے زیادہ شئیر کریں گے تا کہ ہماری آواز حکومت وقت تک بروقت پہنچ جائے۔