دنیا اپنی رفتار سے بہت آگے محض مصنوعی ماحول میں پروان چڑھ رہی تھی۔ احساسات وجذبات صرف موبائل پر میسج تک محدود ہو گئے تھے۔وقت بہت تیزی سے سفر کر رہا تھا۔ کہیں امن کے نام پر بارود بک رہا تھا اور کہیں معیشت کا چورن زوروشور سے بیچا جا رہا تھا۔ کئی جگہوں پر حقوق کی جنگ نعروں میں برسرپیکار تھی۔ دور ایک وادی کشمیر میں مہینوں سے بند بازاروں میں صدا عام تھی، ایک التجا تھی، سلاخوں کے پیچھے قید سسکتی بے یارو مددگار زندگی اپنی اصلی شکل ڈھونڈ رہی تھی۔خودپرستی اس طرح محو تھی کہ مظلوموں کی آہ و پکار پر کوئی کان نہیں دھر رہا تھا۔شاید انسانیت ختم ہو گئی تھی۔
انسان تو وہ ہے جسے دوسروں کادرد محسوس ہو ورنہ اپنا درد تو جانور بھی محسوس کرتے ہیں۔ ظلم جب حد سے بڑھتاہے تو مٹ جاتاہے۔ پھر نظام قدرت حرکت میں آیا،کائنات کے سب سے بڑے منصف رب باری تعالیٰ نے مظلوموں کی پکار سن لی۔ مصروف دنیا میں ہلچل مچی کورونا کی شکل میں اک وبا آئی اور پوری دنیا مقفل ہو کررہ گئی۔اس وقت پورا عالم جس مرض میں مبتلا ہے، شاید ماضی قریب میں آج سے پہلے دنیا نے ایسا منظر نہ دیکھا ہو۔ ابھی دنیا اپنے ڈگر پر چل ہی رہی تھی کہ اچانک ایک وبا نے دنیا کو اس طرح لپیٹا کہ جمے قدم اکھڑ گئے، زور آور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے، جدید سائنسی ٹیکنالوجی سے آراستہ اقوام کی چیخیں بھی دور دور تک سنائی دینے لگیں۔
خود سپر پاور بننے کا خواب دیکھنے والوں کو بھی خاصا جواب مل چکا ہوگا۔ عجیب مرض ہے کہ ٹیکنالوجی کی دنیا کے ماہرین بھی منہ تکتے رہ گئے۔ سچ کہا جائے تو جو رب ہے نا وہی سب ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اتنا سب ہو نے کے باوجود انسان نہ بدل سکا۔ ہم اشرف المخلوقات ہیں مگر ہم میں وہ خصائل نہیں ہیں یہاں تو انسانیت کا تماشا بنایا جارہا ہے۔ پانچ کلو آٹے کا تھیلا کسی غریب کو دینے کے لیے دس لوگ کھڑے ہوتے ہیں ۔ جھوٹی شہرت کے لئے راشن تقسیم کرتے وقت تصویریں بنا کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی جاتی ہیں۔ان کی شہرت بھر پور ہوجائے غریب ذلت کی چکی میں پستارہے۔
کل خدا کو بھی منہ دکھانا ہے اگر اس نے آپ کو رزق دیا ہے تو کل آپ سے پوچھے گا بھی کہ کیسے اور کہاں استعمال کیا. چند لوگ سستی شہرت کی وجہ سے سارے معاشرے کو بد نام کر رہے ہیں۔ پا نچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ایسے بھی لوگ ہیں جو غریبوں کی مدد کرتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔لالچ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ لوگوں نے اشیائے خوردونوشاورادویات کی ذخیرہ اندوزی کرکے ان کو مہنگے داموں میں بیچنا شروع کر دیا ہے ۔یہاںاگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ کل قیامت آنے والی ہے تو بازار میں سب سے مہنگی چیز جائے نماز ہوگی۔لوگوں نے وبا سے جان چھڑانے کے لئے مختلف عبادات کیں ۔مگر کوئی فرق نہیں پڑا ۔ میری گزارش ہے کہ تہہ خانوں میں سے گھی،آٹا،دالیں اور ماسک نکال کر اصل قیمت پر بیچ کے دیکھیں امید ہے فرق پڑ جائیگا۔
بطور مسلم ہم وہ خوش نصیب ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں جن کے پاس قرآن جیسی مقدس کتاب ہے حضرت محمدؐ کے امتی ہیں ۔ مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اللہ کی نہیں مانتے۔ ہم نے قرآن فہمی کو قرآن خوانی تک محدود کر دیا ہے ہم سنت نبوی پر عمل پیرانہیں ہوتے۔ اس برق رفتار دنیا میں ہر ملک ہی ہتھیاروں کی دوڑ میں میں آگے نکلنے کو ہے۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ مہنگے مہنگے ہتھیار خریدنے والے کبھی خوراک کو تقسیم کرنا سیکھ ہی نہ سکے ،کبھی غریبوں کے زخموں پر مرہم رکھنا سیکھ ہی نہ سکے۔یہی لمحہ فکریہ ہے اور شاید جو اب ہو رہا ہے مکافات عمل اسی کا نام ہے۔
خدارا! انسانیت کی فکر کریں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔خدا نے ہمیں ذرا سا جھنجھوڑا ہے تو حالات دیکھ لیں ۔اپنے غریب بھائیوں کے غم بانٹ کے دیکھیں امید ہے کسی غریب کی دعا رب ذوالجلال کے دریارحمت کو گردش میں لائے گی اور وہ ہماری خطائیں نظر انداز کرتے ہوئے اپنی خصوصی رحمت سے اس مشکل سے ہمیں نکا لے گا۔خالق کائنات سے دعا ہے کہ ہماری خطائوں کو درگزر کرتے ہوئے ہمیں اس مشکل سے نکال لے ہم اس قابل نہیں کہ ہم اتنا بوجھ برداشت کر سکیں۔میرے مالک ہم کمزور لوگ ہیں ۔ اور اپنے محبوب کے صدقے جس کی خاطر کن سے فیکون تک کا سفر طے پایا۔
خدایا رحم کر ہم پر، کہ ہم ناچار پھرتے ہیں اُٹھائے بوجھ ظلمت کا، پریشاں وار پھرتے ہیں!
طبیبا! اِک نظر اِن پر، کرَم تیرا، کرَم ترا تِرے بندے، تِرے عاشق، تِرے بیمار پھرتے ہیں!