کل تک جورعایاپرتن، من، دھن قربان کرنے کی قسمیں کھاتے ہوئے نہیں تھکتے تھے اورجواکثرالیکشن مہم کے دوران باآوازبلند یہ فرمایاکرتے تھے کہ ہم آپ کے بچوں کے بھی غلام رہیں گے۔قوم پرآج جب مشکل وقت آیا تو21 کروڑعوام کے وہ سارے امیرغلام منظرسے نہ صرف غائب ہیں بلکہ ان کاکوئی اتہ پتہ بھی نہیں۔کروناوائرس کی وجہ سے کسی اورنے خودکوگھرتک محدود کیا یا نہیں لیکن ہمارے ممبران اسمبلی،وزیراورمشیرسارے قرنطینہ میں ضرورچلے گئے ہیں۔کروناوائرس کی وجہ سے پوری قوم خوف،دہشت اورایک بڑے امتحان وآزمائش سے دوچارہے مگرقوم کے ایک آنسوپراپناخون بہانے کے دعوے کرنے والوں کاآج کہیں کوئی نام ونشان نہیں۔
جن کوان نکمے حکمرانوں اورسیاستدانوں کی جانب سے پکوڑے بیچنے کے طغنے دیئے جاتے تھے ۔وہ پکوڑے بیچنے والے توجان ہتھیلی پررکھ کرآج کروناکے خلاف فرنٹ لائن پرکھڑے ہیں لیکن افسوس برگر،سموسے اورپیزے کھانے والوں کا اس مشکل میںکہیں کوئی سایہ بھی نظر نہیں آرہا۔کوئی ان برگر،سموسے اورپیزے کھانے والے ببرشیروں کوبتائے کہ پاکستان میں کروناکے خلاف جنگ میں پہلی جان جس نے دی ہے اس کاتعلق اسی پکوڑے بیچنے والے قبیل سے ہے۔یہ پکوڑے بیچنے والے اگرنہ ہوتے تونہ جانے آج اس عالمی وباء کے موقع پراس ملک اورقوم کی کیاحالت ہوتی۔۔؟یہ پکوڑے بیچنے والے ڈاکٹراخلاق اورکردارکے حوالے سے چاہے جیسے بھی ہوں لیکن اس وقت قوم کوکروناسے بچانے کیلئے یہی توفرنٹ لائن پرکھڑے ہیں۔
ہمارے ممبران اسمبلی،وزیراورمشیرتوجدیدماسک اورلباس پہنے بغیرگھرسے بھی باہرنہیں نکل رہے لیکن پکوڑے بیچنے والے یہ ڈاکٹرعام ماسک اورگلوزکے بغیربھی پوری ایمانداری اوربہادری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ملک میں کروناکے خلاف جنگ میں پہلے شہید کا اعزازپانے والے ڈاکٹراسامہ کا تعلق بھی اگران سیاسی برگر،سموسے اورپیزے گروپ سے ہوتاتووہ بھی ہاتھ پرہاتھ رکھ کریوں تماشادیکھتے مگراسامہ اس قبیل سے تعلق رکھتے تھے جن کو،،مسیحا،،کانام دیاجاتاہے۔مسیحاتوپھرمسیحاہوتے ہیں ۔ساری دنیابھی اگرساتھ چھوڑدے اس وقت اورمرحلے میں بھی جواصل اورحقیقی مسیحا ہوتے ہیں وہ جان ہتھیلی پررکھ کرمسیحائی کایہ علم اسی طرح بلند رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج جب پوری دنیانہ صرف کرونابلکہ کروناکے مریضوں سے بھی دوربھاگ رہی ہے مگرایک ڈاکٹر،نرسزاوردیگر میڈیکل سٹاف ہے کہ جواپنی مسیحائی کی وجہ سے بغیرکسی حفاظتی اقدامات وانتظامات کے کروناکے مریضوں کوگلے لگانے کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں ۔آج اس ملک میں کراچی سے گلگت،پشاورسے کوئٹہ،چترال سے بٹگرام ،لاہورسے کاغان اورآزادکشمیرسے کوہستان تک کسی ایک ہسپتال میں بھی ڈاکٹر، نرسز، اور دیگر میڈیکل اسٹاف کے پاس کروناسے بچائوکیلئے کوئی جدیدماسک ہیں اورنہ ہی کوئی لباس۔لیکن حفاظتی اقدامات اورانتظامات نہ ہونے کے باوجودآج پورے ملک کے ان ہسپتالوں میں خداکے یہ بندے اللہ کامبارک نام لیکرعوام کی خدمت اورکروناکوشکست دینے کے لئے پولیس کے چاق وچوبند دستوں کی طرح تیاراورالرٹ کھڑے ہیں۔
قوم کاپیسہ باپ داداکی جاگیرسمجھ کرہڑپ کرنے والوں کوعام لوگوں کی فکرنہیں ایسے میں انہیں ان پکوڑے والوں کی خیرخبرکیاہوگی۔۔؟اگلے مورچے پردشمن کامقابلہ کرنے والے مجاہدکوجس طرح جدیداسلحے سے لیس ہوناچاہیئے اسی طرح کروناجیسی مہلک بیماریوں اوروبائوں سے نبرآزماڈاکٹرزاوردیگرمیڈیکل سٹاف کے لئے بھی جدیدسہولیات سے آراستہ وپیراستہ ہو ناازحدضروری ہے۔ہماری یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کوتوڈاکٹروں سمیت دیگرلوگوں کے عیوب نظرآتے ہیں مگراپنے عیب انہیں کبھی دکھائی نہیں دیتے۔دوسروں کے پکوڑے بیچنے کا منظر توہمارے ان حکمرانوں اورسیاستدانوں کوہمیشہ یادرہتاہے مگراپنے گرم انڈے گرم انڈے والے نعرے ان کوپھریادنہیں رہتے۔
اس ملک میں ڈاکٹرز،نرسزودیگرمیڈیکل سٹاف کوگالیاں توسب نے دیں۔لاٹھی چارج اورآنسوگیس کی بارش بھی ان پرہردورمیں ہوئی لیکن ڈاکٹروں سمیت میڈیکل کے شعبے سے وابستہ اس قبیلے کوکچھ دینے کے بارے میں آج تک کسی نے سوچنے کی زحمت بھی گوارانہیں کی۔ اس قبیلے نے سہولیات ومراعات کی فراہمی کے لیئے جب بھی روناپیٹناشروع کیاتوبجائے ان کی اشک شوئی کے الٹاہمیشہ ان پرلاتوں ،مکوں اورڈنڈوں کی بارش کی گئی۔مسلم لیگ ن سے لیکرپی ٹی آئی کی حکومت تک کسی نے بھی ان کی آوازپرکبھی کوئی توجہ نہیں دی بلکہ ان کے مطالبات ماننے اورمسائل حل کرنے کی بجائے انہیں پکوڑے بیچنے والے، چور،قصائی،ڈاکونہ جانے اورکیاکیاکہاگیا۔لیکن آج وہی قصائی اورپکوڑے بیچنے والے جان ہتھیلی پررکھ کرمیدان میں کھڑے ہیں۔
آج جب کروناوائرس کے نام سے بھی لوگ خوف کھاتے ہیں اوربیگانے کیا اپنے بھی کرونامریض کے قریب جانے سے کتراتے ہیں لیکن اس وقت بھی اگردیکھاجائے توسرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرزونرسزسے لیکرچندہزارتنخواہ لینے والے وارڈبوائے، کمپیوٹرآپریٹر،سیکورٹی گارڈاوروارڈآیاتک سب جان اللہ دے حوالے کرکے انسانیت بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔سرکاری ہسپتالوں کے صرف ڈاکٹرنہیں بلکہ کلاس فورتک عہدوں میں وہ چھوٹے چھوٹے اورگمنام ملازم بھی جواس وقت کروناوائرس اوروباء کے خلاف جہادمیں مصروف ہیں ۔ہمیں اپنے ایسے مجاہدوں اورجانبازوں پرفخرہے۔کروناکے خلاف جنگ میں ایک ڈاکٹرکی پہلی شہادت یہ ہمارے نااہل اورکرپٹ سیاستدانوں،جاہل حکمرانوں اورپکوڑے والے وزیروں ،مشیروں کے منہ پرایک طمانچہ ہے۔
جولوگ کہتے تھے کہ یہ ڈاکٹرقصائیوں والے کام کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ڈاکٹراسامہ کی شہادت اورکروناکے خلاف مورچے سنبھالنے والے ہمارے یہ ڈاکٹران کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں ۔ہم مانتے ہیں کہ ڈاکٹروں میں قصائی،چوراورڈاکوبھی بہت ہیں جوچندٹکوں کی خاطرنہ صرف غریبوں اورمجبوروں کودونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں بلکہ انسانیت کے جنازوں پرجنازے بھی نکالتے ہیں ۔ایسے قصائی نماڈاکٹروں کی بات ہم بھی نہیں کررہے اورنہ ہی ایسے ڈاکٹروں سے ہمیں کوئی ہمدردی ہے پر اتناضرورکہتے ہیں کہ اس ملک میں پکوڑے بیچنے والے ڈاکٹرکوئی ہے یانہیں لیکن انسانیت پرجان قربان کرنے والے ڈاکٹراسامہ جیسے مسیحاضرورہیںجوانسانیت پرجان قربان کرناآج بھی اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں۔
ہمیں ایسے ڈاکٹروں،نرسزاورپیرامیڈیکل سٹاف پرنہ صرف فخرکرناچاہیئے بلکہ ان کی جان بچانے کے لئے بھی کچھ کرگزرناچاہیئے ۔جان ہرکسی کی پیاری اورزندگیاں سب کی اہم ہیں لیکن ایک مسیحاکی زندگی ان سب سے بھی اہم ہے۔کیونکہ یہ باقی سب زندگیاں اسی ایک مسیحاکی زندگی سے جڑی ہوئی ہیں۔آج اس ملک میں ڈاکٹراسامہ جیسے ہزاروں مسیحائوں کی زندگیاں ہم نے دائوپرلگادی ہیں ۔ایک طرف کہاجارہاہے کہ کروناسے بچناہے دوسری طرف حالت یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں اوردیگرسٹاف کے پاس کروناسے بچنے کے لئے ماسک تک نہیں ۔حفاظتی اقدامات اورسہولیات نہ ہونے کی وجہ
سے ہی توڈاکٹراسامہ کروناکیخلاف زندگی کی جنگ ہارگئے۔ڈاکٹراسامہ کے پاس انتظامات ہوتے ۔انہیں کروناسے بچائو کے لئے سہولیات میسرہوتے تووہ کروناکی وجہ سے اس طرح زندگی کی بازی کبھی نہ ہارتے۔حفاظتی انتظامات اورسہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹراسامہ کے بعداورکئی ڈاکٹروں کے بھی کروناسے متاثرہونے کی اطلاعات اورخبریں گردش کررہی ہیں ۔
اللہ ہم سب پراپناخصوصی فضل وکرم اوررحم کرے۔آمین۔اور21کروڑعوام سمیت ملک بھرکے تمام ڈاکٹروں کواپنے حفظ وامان میں رکھیں۔یوں توکرونا نے اس وقت اکثردنیا کونشانے پرلے رکھاہے مگریہاں سہولیات، اقدامات اور انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹرز،نرسزاوردیگرہیلتھ ورکرزکی زندگیاں سب سے زیادہ دائوپرلگ چکی ہیں ۔ہمیں قوم کوکروناسے بچانے کے لئے پہلے ان مسیحائوں کوبچانے کے لئے اقدامات اٹھانے ہونگے کیونکہ یہ محفوظ ہوں گے توتب یہ قوم کو بچاسکیں گے ورنہ بصورت دیگرہمارے پاس پھر ہاتھ ملنے کے سواکوئی چارہ نہیں رہے گاکیونکہ ایک مسیحاہم پہلے ہی کھوچکے۔