ہر طرف ویرانی سی ہے اور چار سُو خاموشی چھائی ہوئی ہے،نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ میں حیران و پریشان اپنے دل و دماغ کو جھنجھوڑنے لگا کہ کیا میں واقعی انسانوں کی دنیا میں ہوں؟ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لئے چاروں طرف نظر دوڑائی تو عمارتیں انسانوں کی سی لگیں یعنی کہ انسانوں کی بنائی ہوئی اور انسانوں کی رہائشی عمارتیں اور جس روڈ پر میں اپنے پیروں کو جنبش دے کر حیرانگی کی کیفیت میں بڑی آہستگی کے ساتھ آگےکی سمت رواں ہوں وہ روڈ بھی انسانوں کی بنائی ہوئی لگ رہی ہے۔
پھر سوچ میں پڑگیا کہ اگر میں واقعی انسانوں کی دنیا میں ہوں تو کہاں گئے سارے انسان۔۔۔؟ یہ دنیا انسانوں سے خالی کیوں نظر آرہی ہے۔۔۔؟ کیوں یہ ویرانی سی چھائی ہوئی ہے اور یہ سناٹا اور خاموشی کس لیے..؟ان سوالات کا جواب معلوم کرنے کے لئے جب میں ذرا سا آگے پہنچا تو میری حیرانگی میں اس وقت مزید اضافہ ہوا کہ جب ایک مسجد کے گیٹ پر ایک بڑا سا تالا لگا دیکھا، یہ منظر دیکھ کر جب ہاتھ کی کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ ظہر کی نماز کا وقت ہوا ہی چاہتا ہے۔
پھر آگے ایک امام بارگاہ بھی اسی صورتحال سے دوچار نظر آئی ، اب حیرانگی کے ساتھ ساتھ مجھ پر وحشت بھی طاری ہونے لگی اور میں دل ہی دل میں بڑبڑانے لگا کہ یا اللہ یہ ماجرہ کیا ہے؟ اسی سراسیمگی کی حالت میں ذرا اور آگے کی سمت بڑھا تو حالت اور بھی غیر ہوگئی جب ایک مندر اور چرچ کو بھی سنسان پایا۔ اسی دوران ایک گلی سے کتوں کی ایک ٹولی مجھے بڑی حقارت بھری نظروں سے دیکھتےہوئے میرے قریب سے گزری۔
جوں جوں میں آگے کی سمت بڑھتا رہا خوف کی شدت بڑھتی گئی اور اسی وحشت اور خوف کے عالم میں میری نظر ایک تعلیمی ادارے پر پڑی تو ایک بڑا سا تالا اس کے گیٹ کی زینت بنتے دیکھا اور اس کے برابر میں ہی ایک فٹبال اسٹیڈیم کو بھی بند اور ویران پایا۔ اس صورتحال میں میرے اندر کا انسان مجھے بڑی شدت کے ساتھ بے چین کررہا تھا کہ کچھ معلوم تو کروں کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے؟ کیوں یہ دنیا اتنی خاموش اور ویران لگ رہی ہے۔
لیکن معلوم کروں بھی تو کس سے؟ ان عمارتوں کی دیواروں سے کہ جو سننے، سمجھنے اور بولنے سے قاصر ہیں۔ اسی سوچ کے ساتھ ذرا آگے بڑھتا ہوں تو ایک بند مسجد کے سامنے ایک بزرگ کو ان کے ہاتھ میں موجود تسبیح میں مگن پاتا ہوں ،پہلے تو ان کو دیکھ کر میں ذرا ڈر سا گیا کہ کیا یہ واقعی انسان ہے یا اللہ کی کوئی اور مخلوق جو اس ویران اور خاموش دنیا میں تن تنہا اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے۔
بہرحال ڈر اور خوف کو محسوس کرتے ہوئے بھی میں ان کی طرف بڑھا۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواب دیئے بنا مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا لیکن بیٹھنے سے قبل جب میں نے مصافحے کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو بزرگ نے مصافحہ کئے بغیر کہا کہ بیٹا ذرا فاصلے پر بیٹھنا۔ بزرگ کا مصافحہ نہ کرنا اورمجھے فاصلے پر بیٹھنے کا کہنا میری پریشانی میں مزید اضافہ کرنے کے لئے کافی تھا۔
بزرگ کے برابر میں لیکن ذرا فاصلے پر بیٹھتے ہی ہمت کر کے میں نے پوچھا بابا اس ویرانی میں یہاں اکیلے بیٹھ کرآپ کو ڈر اورخوف محسوس نہیں ہورہا؟ میرے اس سوال پر بزرگ نے زیر لب مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا لیکن کوئی جواب نہیں دیا، لیکن میں نے فوراً ہی دوسرا سوال داغ دیا ،بابا جی یہ دنیا اتنی خاموش اور ویران کیوں لگ رہی ہے؟ کہاں گئے اس دنیا کے لوگ ؟
میرے اس سوال کا انہوں نے بڑے شائستہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا آج کل دنیا میں ایک بلا کا راج ہے کہ جو پوری دنیا کے انسانوں کو پیروں تلے کچل کر ان کو عبرت کا نشان بنا رہی ہے۔ یہ سن کر میرے خوف کی شدت میں مزید اضافہ ہوا لیکن پھر بھی ہمت کرکے پوچھ بیٹھا کہ بابا اتنی بڑی دنیا ہے اور اتنے سارے لوگ ہیں کوئی تو ہوگا اس بلا کو روکنے اور اس کا قلع قمع کرنے والا۔ یہ سن کر بزرگ کا زوردار قہقہہ آسمان کو چھو بیٹھا اور میں بھی ڈر سا گیا ،پھر وہ گویا ہوئے کہ سب کے سب بے بس ہیں۔
بڑے بڑے دعوے کرنے والی عالمی طاقتیں بے بس۔ ایک دوسرے کے خلاف فتوے جاری کرنے والے بڑے بڑے مذہبی رہنما اور علما بے بس ہیں .. ویسے ایک بات ہے بیٹا کہ اس بلا کے چُنگل سے نہ تو بڑی طاقتیں اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں، نہ ہندو نہ مسلمان اور یہودی نہ عیسائی سب کے سب اس کی زد میں ہیں ۔آج سب کی عبادت گاہیں ویران ہیں۔ آج کوئی مذہبی منافرت اور انسانوں کے بیچ نفرت پھیلانے کی پوزیشن میں نہیں ۔آج کوئی کسی کو کافر ثابت کرنے کے بڑے بڑے فتوے جاری نہیں کر رہا کیوں کہ آج سب کو اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
آج کوئی بڑی طاقت ایٹم کے زور پر جنگی جنونیت میں مبتلا ہو کر انسانیت پر شب خون مارنےکے دعوے نہیں کررہی۔ آج کوئی سرمایہ دار و جاگیردار کسی مزدور اور کسان پر استحصال کرنے سے قاصر نظر آرہا ہے، کیوں کہ آج سب کے سب مشکل میں ہیں۔ آج سب اپنی زندگی کی بقاء کی جنگ میں مصروف ہیں۔ کیا عالمی طاقتیں اور کیا چھوٹے ممالک کیا ترقی یافتہ دنیا اور کیا تیسری دنیا کیا ہندو، مسلم،سکھ ،عیسائی اور کیا شیعہ، سنی آج سب ایک انسان کی حیثیت سے انسانیت کی بقاء کی جنگ لڑتےہوئے اس بلا کو شکست سے دوچار کرنے میں مصروف ہیں۔
بزرگ کی یہ باتیں سننے کے بعد میں اٹھ کھڑا ہوا۔ دنیا کی اس ویرانی کے خوف و وحشت سے بے نیاز اور دل ہی دل میں خوشی سے جھومتے ہوئے میں اپنے قدم آگے کی سمت بڑھاکر سوچنے لگا کہ اس بلا سے چھٹکارے کے بعد شاید اس دنیا میں انسانیت کا بول بالا ہو،دنیا سے استحصال، قومی و طبقاتی جبر،نفرت و عداوت ،مذہبی منافرت اور فرقہ ورایت، کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ممکن ہو..کاش کہ ایسا ہی ہو!!