گزشتہ کچھ عرصے سے آہستہ آہستہ پوری دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ 8 لاکھ سے زائد انسان اس کا شکار بنے اور 70 ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔ ماہرین اسے جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا کے لیے سب سے مشکل اور خطرناک وقت قرار دے رہے ہیں۔ طبی ماہرین بھی اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پوری دنیا لاک ڈاؤن ہوچکی ہے۔ 3 ارب سے زائد انسان اپنے گھروں میں قید ہیں۔ اگر دنیا اس پر قابو پا بھی لے، تو اس کے بعد دنیا معاشی کورونا کی زد میں آجائے گی۔ دنیا کا مالیاتی نقشہ ضرور تبدیل ہو چکا ہوگا۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں، بڑے بڑے ایٹمی میزائل، لاکھوں کی افواج، اس 400 مائیکرون قطر کے ایک وائرس کے آگے بے بس ہو چکی ہیں۔
آج سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ سمندر کی تہہ سے لے کر آسمان کی بلندی تک کی جانچ ہو رہی ہے، مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کئے جا رہے ہیں۔کورونا کے پھیلاؤ سے قبل یہ علم تھا کہ جب چاہتے تھے ڈرون کے ذریعے کسی کو کہیں بھی ختم کر دیتے تھے۔ ایجادات پر ایجادات ہو رہی تھیں، مگر آج ایک چھوٹے سے وائرس سے خوفزدہ ہیں اور اس کے آگے بے بس ہیں۔آج انسان کی ہزاروں سال کی ترقی، اس کی ریسرچ، اس کے تجربے، اس وائرس کے آگے بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ انسان جب اپنی اوقات بھول جاتا ہے تو پھر قدرت اسے یاد دلاتی ہے کہ اس کی اوقات ہے کیا؟؟پیدائش سے لے کر موت تک کا یہ سفر، اللہ کی دی ہوئی صرف ایک مہلت ہے۔ہمارا جسم، ہماری روح، ہمارا دماغ، ہماری عمر، ہماری طاقت، سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ادھار ہی تو ہے۔ جو ہمیں آج نہیں تو کل واپس لوٹانا ہے، تو کس چیز کا غرور؟؟؟ کس چیز کی اکڑ؟؟؟انسان نے خود کو کیا سمجھ رکھا ہے؟آج بڑے بڑے بادشاہ، حکمران اور کوئی انسان اس سے محفوظ نہیں.. محلوں سے لے کے جھونپڑوں تک.. ہر جگہ سناٹے اور ویرانے ہیں۔
کیوں نہ ہوں یہ ویرانے؟؟جب فلسطین کی مائیں اپنے جوان بیٹوں کی لاشیں اٹھائے ماتم کرتی تھیں، جب کشمیر کی بیٹیاں اپنی عصمت دری پر سسک سسک کر اپنی زندگیاں گنوا رہی تھیں، جب یمن اور شام کے بچوں پر آگ برسائی جارہی تھی، لاشوں کے لاشے بکھرے ہوئے تھے۔ عراق، شام، فلسطین، برما، چین، کشمیر، یمن، افغانستان، کروڑوں مسلمانوں پر آگ و بارود کی برسات کی جاتی تھی۔ تو ہم بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے۔ ان کی بے بسی آج پوری دنیا کی بے بسی میں تبدیل ہو چکی ہے۔
آج یہ ظالم دنیا بے بس ہے اور قدرت تماشائی ہے۔ آج رب نے ایک وائرس کیا چھوڑا ہلکا سا نزلہ زکام کی صورت میں..کہ پوری دنیا ہی گھٹنوں پر بیٹھ گئی۔وہ اسپین جہاں آٹھ سو سال سے اذانوں پر پابندی تھی آج صرف وہ اسپین ہی نہیں پوری دنیا اذانوں سے گونج اٹھی ہے کتنا کمزور ہے یہ انسان؟ کتنا محتاج ہے؟پھر کیوں ظلم کرتے نہیں ڈرتا؟آج جس رب کو پکار رہا ہے، کل اسی کے احکامات کی دھجیاں اڑا رہا تھا۔ حقیقت ہے کہ جب ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔
ظالم صرف امریکہ، لندن، یورپ ہی نہیں بلکہ ہم بھی ان کے ظلم میں برابر کے شریک ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہم بھی ظالم ہیں جب مظلوموں، معصوموں کے خون ناحق کو بہایا جارہا تھا تو ہم اپنی زندگیوں میں مگن تھے حالانکہ ہم پہ سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ ہم اپنے ان بے قصور بھائی بہنوں کا بازو بنتے مگر افسوس ہم نے ان کو اپنی زندگی میں صرف 9 بجے کے خبرنامہ تک محدود کر رکھا تھا۔ ذمہ داری صرف چند روپوں کی امداد یا زبانی ہمدردی کا نام نہیں ہوتی بلکہ یہ ذمہ داری تو ہمارے رب نے ہم پر ڈالی تھی اور ہم نے اس میں مسلسل کوتاہی کی۔
اس سے پہلے کہ رب کی لاٹھی گرج کر ہم پر بھی برس پڑے ہمیں اپنا قبلہ درست کر لینا چاہیے۔ یہ وقت ہے رب کے حضور سجدہ ریز ہونے اورتوبہ استغفار کرکے رب کو منانے کا۔ بے شک وہ ذات رحمان و رحیم ہے، اس کا وعدہ ہے اپنے بندوں سے کہ تمہاری توبہ ضرور قبول کی جائے گی۔ یا اللہ ہم پر، ہمارے ملک، ہماری امت، ہماری دنیا پر اپنا کرم اور رحم نازل فرما… آمین ثم آمین۔
بےشک یہ توبۃ النصوح کا وقت ہے۔ بس یہی ایک ذریعہ ہے اللّٰہ کو راضی کرنے کا۔
اب بھی ہم اسطرح پلٹ کر نہیں آۓ جیساکہ پلٹنے کاتقاضا تھا۔ اللہ ہماری غفلت دور فرماۓ آمین
مجھے اللہ سے قوی امید ہےکہ کرونا کے شر سے پوری انسانیت کو ایمان کی طاقت ملےگی ۔بڑی برائیوں کا خاتمہ ہو گا اور انسان رب کو پہچان لے گا کہ طاقت کا اصل منبع خدائے پاک کی ذات ہے