میری سمجھ سے بالاتر ہے کے کرونا وائرس سے بچاو کے لیے صرف مسجدوں کے دروازے ہی کیوں بند کردیے گئے ہیں ؟؟ ہم نے تو ہمیشہ اپنے بڑوں سے یہی سنا کے پیارے نبیؐ ہر مصیبت کے وقت نماز سے مدد لیا کرتے تھے۔ بازاروں کی رونقیں تو عروج پر ہیں، بینک ، دوکانیں ، بازار ہر جگہ لوگوں کا رش ہے ، تو مسجدیں کیوں بند کروائی جارہی ہیں ؟؟ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ نماز جمعہ پڑھتے وقت مسجد میں گھس کر نمازیوں کو حالت نماز میں ڈنڈوں سے مار کر گھر بھیجا جارہا ہے ؟؟کیا یہ کافروں کا ملک ہے یا پھر یہاں بھی بھارت کا راج ہے۔ یا ہم بھی کشمیری بنتے جارہے ہیں ؟؟بھول گئے ہو اگر نماز جمعہ کی فضیلت، تو سنو یاد دلاتی ہوں میں کہ اللہ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو (١) یہ تمہارے حق میں زیادہ ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔”
’’ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں راوی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے منبر کی لکڑی (یعنی اس کی سیڑھیوں) پر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ نمازِ جمعہ کو چھوڑنے سے باز رہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا اور وہ غافلوں میں شمار ہونے لگیں گے‘‘۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں :
کو یہ پسند ہو کہ وہ حالت اسلام میں کل (قیامت کے دن) اﷲ تعالیٰ سے کامل مومن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہئے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہے وہاں ان نمازوں کی حفاظت کرے (یعنی وہ نمازِ پنجگانہ باجماعت ادا کرے)۔‘‘ پھر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : تم منافقوں کی طرح مسجدوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے تو اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔‘‘ ( صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ) ۔ شفیق ومہربان نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت ترک کرنے والوں کے متعلق شدید وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں، بہت سی روایات میں یہ مضمون وارد ہے کہ اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے تو میں اپنے جوانوں کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیتا کہ ان لوگوں کے گھروں کو آگ سے جلادیں جو جماعت میں نہیں آتے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یا تو کھلا ہوا منافق جماعت ترک کرتاتھا یا پھر ایسا مریض جو دو آدمیوں کے سہارے بھی نہ آسکتاہو، ورنہ مریض بھی دو آدمیوں کے سہارے گھسٹتے قدموں آکر مسجد کی جماعت میں شامل ہوتے تھے۔نبی اکرم پانچ فرض نمازوں کے علاوہ نمازِ تہجد، نمازِ اشراق، نمازِ چاشت، تیحۃ الوضوء اور تیحۃ المسجد کا بھی اہتمام فرماتے۔ اور پھر خاص خاص مواقع پر اپنے رب کے حضور توبہ واستغفار کے لئے نماز ہی کو ذریعہ بناتے۔ سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو مسجد تشریف لے جاتے۔ زلزلہ، آندھی یا طوفان حتی کہ تیز ہوا بھی چلتی تو مسجد تشریف لے جاکر نماز میں مشغول ہوجاتے۔ فاقہ کی نوبت آتی یا کوئی دوسری پریشانی یا تکلیف پہنچتی تو مسجد تشریف لے جاتے۔ سفر سے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر نماز ادا کرتے۔
اور اب تک سوائے سوشل میڈیا پر کوئی ایک بھی حقیقت میں یہ بتادے کے اسے یا اس کے گھر میں سے یا اس کے خاندان میں یا اس کے دوست و احباب میں سے یا اپنی آنکھوں سے (بغیر سوشل میڈیا کو سامنے رکھتے ہوئے) یہ وائرس کسی کو لگا ہے؟ …اٹھو نکلو! اپنے گھروں سے اور حفاظت کرو اپنی نمازوں کی ، اپنے ایمان کی ، کہیں ایسا نہ ہو کے واقعی اللہ کے عذاب میں گھیر لیے جاو۔ یاد رکھو کے عوام سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں۔ اور یاد رکھو کے جب تم اپنے ایمان کی حفاظت کرو گے تو اللہ تمہاری حفاظت کرے گا۔