اپنے ہاتھوں کی کمائی

ہاتھوں میں گلوزمنہ پر ماسک لگائے ماسی جمیلہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اپنے کام پر جانے کے لئے گھر سے نکلی. باجی رخسانہ کے گھر کی بیل بجائی تو چھوٹےبیٹےعلی نے اوپر سے ہی جھانکتے ہوئے کہا کہ ماسی جمیلہ آج کام کی چھٹی ہے کل آنا. میں پھر دوسرےگھر کی طرف چل پڑی بغیر دروازہ کھولے ان کے گھر سے بھی یہی آواز آئی آج چھٹی ہے پھر تیسرے چوتھے..اور آٹھویں گھر سے بھی یہی سب کچھ ہوا۔ بغیر گھر میں داخل ہوئے سب نے باہر سے ہی منع کردیا۔

 چہرے پر خوشی جھلک رہی تھی جو ماسک کی وجہ سے ظاہر نہیں ہو رہی تھی۔سوچا گھر جا کر بچوں کے ساتھ وقت گزاروں گی اور پورا دن آرام کروں گی .میرے لیے تو بہت ہی خوشی کا دن تھا مجھے تو عید کے دن بھی چھٹی نہیں ملتی تھی .دکھ بیماری  کچھ بھی ہو جائے منتیں کرتے رہ جاؤ مجال ہے جو کبھی کسی باجی کو ترس آیا ہو۔گھر میں داخل ہوئی تو کمالہ (شوہر)اداس بیٹھا ہوا تھا۔” آج آپ اتنی جلدی کیسے آگئے ٹھیلا بھی ویسے کا ویسے ہی رکھا ہوا ہے” ۔کہنے لگا  “ہاں  جیسے ہی میں گھر سے نکلا تو پولیس والے آ گئے کہنے لگے سب بند ہے گھر واپس جاؤ میں گھر آنے کے بجائے چپکے چپکے گلیوں میں گھس گیا۔

 ہر ایک کے دروازے کے سامنے زور زور سے آوازیں لگاتا رہا لیکن کوئی لینے نہیں آیا. سب نے پہلے سے ہی گھروں میں سامان بھر بھر کر رکھ لیا تھا۔ ہم کیا کریں ہمارا تو روز کا کمانا کھانا ہے ہم غریب کہاں جائیں اس کرونا وائیریس (وائرس) نے توہمیں جیتے جی  مار دیا۔ سنا ہے پوری دنیا اس سے  خوف زدہ ہے.””لیکن تو کیوں اتنی خوش نظر آ رہی ہے” ؟۔جمیلہ نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔” تجھے تو معلوم ہی ہے کما لے!  یہ باجیاں ہمیں جینے کہاں دیتی ہیں۔

 پورے ہفتے کام کرواتی ہیں ایک اتوار کا دن ہوتا ہے اس میں بھی بلوا لیتی ہیں.  ہمیں تو عید کی بھی چھٹی نہیں ملتی آج خوشی خوشی سب نے بغیر مانگے چھٹی دے دی ہے کمالہ کہنے لگا ۔” اے جمیلہ! تو پاگل تو نہیں ہوگئ.؟ انہوں نے خوشی خوشی نہیں بلکہ خوف کے مارے چھٹی دی ہے کہ کہیں ہمیں نہ لگ جائے. ورنہ یہ کسی پر ترس نہیں کھاتے” “ہاں کمالے یہ تو بالکل سولہ آنے ٹھیک کہہ رہا ہے . یاد ہے پچھلے مہینے منے کی طبیعت کتنی خراب تھی لیکن کسی نے بھی ایک دن کی چھٹی نہیں دی تھی ،سوائے میری ایک باجی کے، اللہ انہیں اچھا رکھیں .مجھے اپنی حفاظت کے لیے دعائیں بھی یاد کرا دیں اور ایک صابن ،گلوز اور منہ پر لگانے کے لیے ماسک بھی دیا۔باقی سب کے دل تو پتھر بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہیں لیکن شکر ہے اللہ کا اسی بہانے مجھے کچھ آرام مل جائے گا”

“جمیلہ تو پھر پاگلوں والی باتیں کر رہی ہے ابھی مہینہ ختم ہونے میں پورا ہفتہ باقی ہے. ہمارا گزارہ تو اسی تنخواہ پر ہوتا ہے میرا تو روز کا دھندہ ہوتا ہے کم یا زیادہ. لیکن تیری تنخواہ سے تو گھر کا کرایہ اور تھوڑا راشن بھی آ جاتا ہے.اگر دس بارہ دن کی چھٹی دے دی کہیں تنخواہ نہ کاٹ لیں!!! یا ایسا بھی ہو سکتا ہے اس مہینے تنخواہ ہی نہ دیں  کہ اگلے مہینے ایک ساتھ لے لینا!!!سوچو اگر اس مہینے تنخواہ  نہ ملے تو ہم کیا کریں گے” ؟؟واقعی یہ تو میں نے سوچا ھی نہ تھا . میں نے کہا ” اللہ خیر کرے گا” ۔

رات کروٹ بدلتے گزر گئی صبح  ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوتے ہی میں گلوز اور ماسک پہن کر چل پڑی. پہلا گھر باجی رخسانہ کا تھا بیل بجانے کے بعد باجی رخسانہ نے کہا “جمیلہ چھٹی ہے تمہاری، پورے دس دن کے بعد آنا ,خوش ہوجاؤ ۔ جی شکریہ باجی  لیکن وہ ایک ہفتے کے بعد پہلی تاریخ آئے گی میری تنخواہ تو دے دیجئے. مالک مکان کو دینا پڑتا ہے وہ نہیں مانے گا تنگ کرتا ہے” .. “ارے بھئی ,جلدی کس بات کی ہے جب دس دن کے بعد آؤگی تو لے لینا.” یہ کہتے ہوئے وہ واپس اندر چلی گئی. دوسرے گھر کی بیل بجائی دس دن کے پیسے کاٹ کر دے دئے. بوجھل قدم اٹھاتے ہوئے ایک کے بعد دوسرے گھر جاتی رہی .سب کے پاس سے یہی جواب آتے رہے کسی نے اندر بلانے کی زحمت تک نہ کی۔

یہ تو وہی ہو گیا جس بات کا ڈر  تھا ۔یہ میرا آخری گھر تھا یہ وہی گھر تھا جہاں سے میں نے حفاظت کی دعائیں سیکھی تھیں .باجی نے گھر کے اندر بالکونی میں بلایا ہاتھ میں گلوز اور منہ پر ماسک پہنا ہوا  تھا .10 دن کی چھٹی اور پورے مہینے کی تنخواہ بغیر بولے دے دیئے. پھر پورے مہینے کا راشن بھی ساتھ میں دیا اور کہا “ہمارے کچھ لوگ ہیں جو دوسروں کی مدد کرتے ہیں. اگر کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو ضرور بتانا.

“میں تنخواہ اور راشن کا تھیلا لے کر جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی میری نظرکمالہ پر پڑی وہ بھی ایک بڑا سا تھیلا لے کر بیٹھا ہوا تھا . مجھے دیکھ کر خوشی سے بولا .  “دیکھ جمیلہ کچھ لوگ گھر میں خود چل کر آئے تھے .انہوں نے کہا کہ مولوی صاحب نے بتایا تھا کہ آپ کا روزگار بند ہے. اس لیے وہ دینے آئے لیکن یہ تیرے ہاتھ میں بھی اتنا بڑا تھیلا کس چیز کا ہے، “یہ میری اسی باجی نے دیا ہے جو مجھے ہمیشہ نیکی کا حکم دیتی ہیں برائی سے روکتی ہیں۔ دنیا انھی نیک لوگوں کی وجہ سے تو چل رہی ہے۔”

اب میں اپنے بچوں کو بتا رہی تھی جو ہمیشہ کہتے تھے اللہ ہم غریبوں کی کیوں نہیں سنتا. “دیکھو بیٹا ! آج ہم اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہیں کسی قسم کا خوف نہیں اور رزق بھی اللہ نے گھر بیٹھے پہنچا دیا. یہ آزمائش کی گھڑی ہے ملک میں آفت آئ ہوئی ہے. ہمیں اس مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کرنی ہے”۔بڑےبیٹے نے کہا . “پربابا! ہم بھلا کسی کی کیا مدد کر سکتے ہیں ہم تو خود کسی اور کی مدد کے محتاج ہیں”۔ توبہ توبہ جمیلہ نے ایک دم بناؤٹی غصہ دکھاتے ہوئے کہا ایسا نہیں بولتے بیٹا ہم صرف اللہ کے محتاج ہیں وہی ہمارا  داتا ہے. ہم سب  امیر غریب ،کمزور  یا طاقتور اسی کے محتاج ہیں. دیکھو آج  سب اس کے آگے ناکام ہیں بڑی صرف اللہ  کی پاک ذات ہے۔”

 کمالہ مجھے خوشی سے دیکھ رہا تھا کہنے لگا  .”واہ جمیلہ تو بالکل اپنی باجی جیسی  بڑی بڑی باتیں کرنے لگی ہے. چلو ہم بھی اپنے حصے کا کام کرتے ہیں”. راشن کا تھیلا اٹھایا اور اپنے کندھے پر رکھتے ہوئے کہنے لگا .” مولوی صاحب مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہیں ۔میرے  لئے  تو راشن کا  بندوبست کردیا لیکن سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے  اپنے لیے کچھ نہ کر سکے۔اور ہمیں بھی اپنے ہاتھوں سے نیکی کمانے کا موقع مل گیا۔”

جواب چھوڑ دیں