وقت کے ساتھ اکثرقصے کہانیاں اپنے آپکودہراتی ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ تاریخ انسانی بڑی عجیب ہے انسان اس قدر ضدی ہے کہ عذابوں کاشکارہوکربھی کچھ نہیں سیکھتا بڑے بوڑھے جب بچوں کوکہانیاں سناتے ہیں تواکثراُنہیں خود بھی معلوم نہیں ہوتاکہ وقت گزرنے کے ساتھ وہ قصے کہانیاں پورے خدوخال کے ساتھ بچوں کے سامنے رونما ہو سکتی ہیں بڑے بز رگوں کی کہانیوں کے متعلق ہمیں تویہی معلوم ہے کہ یہ اکثر من گھڑت ہوتی ہیں جوفقط بچوں کی تربیت اوردل بہلانے کے لیے سنائی جاتی ہیں۔
ماں جی بچپن سے ہی ایک کہانی کئی بار سناکرذہن نشین کرواچکی ہیں جس کافلسفہ آج سے پہلے کبھی سمجھ ہی نہیں آیاکرتاتھااس کہانی میں بھی ایک بادشاہ تھا یہ توآپ کومعلوم ہی ہوگاکہ زیادہ تر کہانیوں میں ایک بادشاہ ہوا کرتا ہے توایک بادشاہ اپنی ریاست کی سیرکرنے نکلتاہے دوران سیربادشاہ کی نظرانتہائی خوبصورت خاتون پرپڑتی ہے اور وہ دل ہاربیٹھتاہے۔
بادشاہ کے وزیرمشیر اسے بتاتے ہیں کہ وہ خاتون گداگرہے گداگرمطلب ’’بھیک مانگنے والی ‘‘بادشاہ کادل کسی عورت پرآجانابھی ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں یہ توہم دیکھ چکے ہیں کہ حاکم کاکسی خاتون پردل آجائے توپہلے خاوند سے طلاق دلواکربھی نکاح کرلیتے ہیں اب بادشاہ کوکون منع کرسکتا تھا بادشاہ نے اس گداگرخاتون سے شادی کرلی۔
وہ خاتون بہت خوش تھی اوربادشاہ کی خوشی کی بھی انتہاء نہ تھی گداگرخاتون جوگلی گلی صدالگاکرکھانے کاسوال کیاکرتی تھی اب اسے بادشاہ کے محل میں درجنوں طرح کے شاہی کھانے دستیاب تھے خدمت کیلئے نوکرچارہروقت حاضررہتے بے شمارسہولیات کے باوجوگداگرخاتون جو ملکہ بن چکی تھی ڈپریشن کے سبب اس کی صحت خراب رہنے لگی بادشاہ کے محل اورریاست کے تمام طبیب ملکہ کے علاج میں ناکام ہوگئے ۔
آخربادشاہ نے ہمسایہ ریاستوں سے ماہر طبیب بلوائے وہ بھی ملکہ کے مرض کی تشخیص میں ناکام ہوگئے توبادشاہ بہت پریشان ہوا بادشاہ کسی بھی قیمت پراپنی منظورنظرملکہ کوصحت منددیکھناچاہتاتھااس نے منادی کروادی کہ جوبھی ملکہ کے مرض کی تشخیص اورعلاج کرے گااسے منہ مانگاانعام دیاجائے گا۔
بہت سارے مزیدمعالجوں نے کوشش کی آخرکارایک اہل دانش بزرگ نے ملکہ کے مرض کی تشخیص کچھ یوں کی کہ ملکہ بادشاہ کے محل کی سہولیات اورکھانوں کے سبب بیماررہتی ہے جس کے ممکنہ طورپردوعلاج ہیں پہلایہ کہ ملکہ گلی گلی صدالگاکرکھانے کاسوال کرے اورجوملے وہی کھائے توصحتمند ہوجائے گی۔
دوسری صورت میں محل کے سات درازوں پرصدالگائے اورسات دروازوں میں الگ الگ کھاناتھوڑی تھوڑی تعدادمیں ملے وہی کھاناکھائے تواُمیدہے ملکہ صحت یاب ہوجائے گی۔ بادشاہ یہ کیسے منظورکرلیتاہے کہ اس کی ملکہ گلی گلی صدالگائے اس نے بہت مجبورہوکردوسرے طریقے کاانتخاب کیااورمحل کے سات دروازوں پرصدالگانے پر ملکہ کوکھانا ملنے لگاچندہی دن میں ملکہ کی صحت ٹھیک ہوناشروع ہوگئی۔
بادشاہ نے اس بزرگ کوطلب کیااورکہاکہ مانگوں کیامانگتے ہوبزرگ نے جومانگناتھامانگ لیاتوبادشاہ نے سوال کیاکہ بزرگ کویہ کیسے علم ہوگیاکہ ملکہ صدالگاکرکھاناکھائے تواس کی صحت ٹھیک ہوجائے گی ؟بزرگ نے جواب دیاملکہ کسی بیماری میں مبتلانہیں تھی فقط اس کوعادت تھی مانگ کرکھانے کی لہٰذااسی وجہ سے اس کی صحت خراب تھی جوعادت پوری ہونے پر ٹھیک ہوگئی۔
ماں جی کی کہانی کیا یادآئی کہ ساتھ ہی سیدزاہدحسین شاہ صدرپریس کلب کاہنہ کالطیفہ بھی یاد آگیا،شاہ صاحب کااندازاس قدرخوبصورت ہے کہ معمولی سالطیفہ بھی محفل میں رنگ جمادیتا ہے۔شاہ صاحب اکثریہ لطیفہ سناتے ہیں کہ ایک شخص جب بھی گلی سے گزرتاتوگلی کی دوسری جانب چوک میں جنرل سٹورپر پنجرے میں بند ایک طوطا اسے دیکھ کابھیک منگا بھیک منگا کہنے لگتا۔
پہلے پہلے اس شخص نے سمجھاکہ طوطاویسے ہی بولتارہتاپرکئی ماہ مسلسل غورکرنے پراسے محسوس ہواکہ طوطااسی کودیکھ کابھیک منگا بھیک منگا کہتاہے تواس نے جنرل سٹورکے مالک سے شکایت کی کہ تمہارا طوطا مجھے گالیاں دیتاہے جس پرطوطے کے مالک نے حیرانگی سے کہاکہ بھلاطوطاآپ کوکیوں گالی دے گاتواُس شخص کومزیدغصہ آگیااوراس نے سختی کے ساتھ کہااپنے طوطے کومنع کرلوورنہ مجھ سے بُراکوئی نہیں ہوگا۔
طوطے کے مالک نے طوطے کی طرف دیکھااورغصے سے چلاتے ہوئے بولامیں تمہاری گردن توڑدوں گاجوآئندہ ان صاحب کوگالی دی ابھی ان صاحب سے معذرت کرومعذرت نہ کرتاتوکیاکرتاطوطے نے اُس شخص سے معافی مانگ لی اگلے روزجب وہ شخص وہاں سے گزراتواس کاپورادھیان طوطے کی طرف تھاپرطوطاکچھ نہ بولاجب وہ شخص تھوڑاآگے نکل گیاتوطوطے نے سیٹی ماری اُس شخص نے پیچھے مڑکرطوطے کی طرف دیکھاتوطوطابولا سمجھ توگئے ہوگے۔
اُوپردرج کہانی کااس لطیفے کے ساتھ کوئی تعلق ہے یانہیں؟بیان کردہ کہانی اوردورحاضرمیں کسی قسم کی مماثلت ہے کہ نہیں، یہ فیصلہ آپ پرچھوڑتاہوں ہاں فقط اتناکہنا چاہوں گاکہ اس کالم کاکوئی سیاسی مقصدنہیں باقی آپ سمجھ توگئے ہوں گے؟ ہم عوام توفقط یہ یادرکرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہمیں کس نے بتایاتھاکہ بھیک مانگنے والوں کی کہیں عزت نہیں ہوتی باعزت قومیں کبھی بھیک نہیں مانگتی ۔
ہم پاکستان کواپنے پائوں پرکھڑاکریں گے، کبھی کسی ملک سے بھیک نہیں مانگیںگے، قرضے نہیں لیں گے۔ میرے جیسے بہت سارے پاکستانیوں کو یادنہیں کہ یہ الفاظ کس شخصیت کے ہیں جنہیں یادہے وہ یقینا سمجھ توگئے ہوں گے؟