منیب جلدی کرو۔۔۔دیکھو بابا نکل رہے ہیں نماز کےلیے۔کتنی بار سمجھایا ہے بیٹا اذان ہوتے ہی وضو کرلیا کرو، احمد جلدی جاو بابا بلارہے ہیں۔۔منیب دیکھو اقامت شروع ہوگئ۔۔اب آپ کے ساتھ سختی ہوگی، بابا نکل چکے ہیں”۔۔اور اگر میاں گھر پر نا ہوں تو پھر تو بار بار ایک ہی پکار۔۔۔”منیب اقامت کی آواز پر دھیان رکھنا بیٹا۔دیکھو اذان ہوچکی ہے”۔۔ہر نماز کے وقت ایک ہنگامہ اور چیخ و پکار اکثر مجھے پریشان کردیتی تھی۔الحمداللہ پندرہ بیس قدم کے فاصلے پر موجود مسجد سے ایسا تعلق استوار ہوچکا ہے کہ موذن تبدیل ہوں تو آواز سے پہچان لیے جاتے ہیں ۔
کچھ عرصے پہلے منیب اکیلے نماز پڑھنے جانے لگا تو شروع میں اسکو نماز باجماعت اور مسجد کی مسلمانوں کی سماجی زندگی میں اہمیت بتلاتے ہوئے خود بھی کئ فوائد سے آگاہی ہوئ۔سب سے بڑی بات مسجد میں آنے والے حضرات اور آس پاس کی دکانوں کے گاہک و دکاندار بچوں کو پہچاننے لگے،جسکی بدولت خودبخود بچوں کی نقل و حرکت کی طرف سے فکرمندی کم ہوئ، ہمسایوں سے تعلق جو اب ناپید ہوتا جارہا ہے وہ پیدا ہوا،منیب میں بڑھتی ہوئ خود اعتمادی کہ اب وہ دکان سے سوداسلف بھی لے آتا ہے اور اپنی شخصیت پر بھروسہ مسجد سے وابستگی کا مرہون منت ہے۔نماز باجماعت بچوں کی زندگی میں کتنا مثبت کردار ادا کر گئ،پتا ہی نہیں چلا۔
پرسوں رات جب عشاء کی نماز کے لیے اسی خوبصورت شورشرابے کے ساتھ میاں اور بچے گھر سے نکلے اور مسجد پر پڑے تالے کی وجہ سے پلٹ آئے تو جیسے ایک لمحے کے لیے ہر شے پر سکوت سا طاری ہوگیا دل کسی نے مٹھی میں لے کر زور سے بھینچ لیا۔الفاظ غم کی ترجمانی کے قابل نا رہے، زبان جیسے گنگ ہوگئ۔ ماوف ذہن کے ساتھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوگئ۔پورا گھر اداسی میں ڈوب گیا۔منیب جو کہ کبھی تساہل بھی برت رہا ہوتا تھا وہ بھی خاموش اداس نگاہوں سے دیکھتا رہا۔
فجر کے وقت نماز کی تیاری کے لیے میاں تیزی سے اٹھے تو موذن کے یہ الفاظ “صلو فی بیوتکم “(اپنے گھروں میں نماز ادا کرو) کانوں کے ذریعے دل کو چیرتے محسوس ہوِئے۔۔کافی دیر تک بے چین اداسی کے ساتھ ہم دونوں بستر پر خاموش بیٹھے رہ گئے، اس وقت آنسووں پر زور نا رہا، صلو فی بیوتکم کے الفاظ کی گونج آنسووں کی روانی کو بڑھاتی ہی رہی۔دل ہلکا ہوا تو ذہن سوچنے سمجھنے کے قابل تو ہو ا لیکن مختلف وسوسوں اور خیالات نے بری طرح گھیر لیا۔۔۔۔میرے اللہ نے کیا ہمیں واپس لوٹادیا؟ ہماری طرف سے رخ موڑ لیا؟ کہہ دیا جاو تمہاری عبادت اب قابل قبول نہیں رہی۔۔۔تم امامت کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہو۔۔۔تمہارے دلوں کی سختی نمازوں سے نرمی میں نہیں بدل سکتی۔۔۔تم گونگے ہو بہرے ہو اندھے ہو۔۔
دماغ کی رگیں بےبسی سے پھڑ پھڑانے لگیں۔دنیا کے مجموعی حالات اور اس میں بحیثیت مسلمان اپنا کردار اپنے خطرناک انجام کی طرف اشارہ کرتا محسوس ہوا۔۔وہ ذمہ داری جسکا بوجھ پہاڑ پر پڑتا تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا۔۔اس عظیم ذمہ داری سے اتنی غفلت اور اس درجے کوتاہی ۔۔۔باوجود اسکے کہ پورے قرآن میں جگہ جگہ اللہ تعالی کبھی ڈرا کر …: فرعون والوں اور ان سے اگلوں کا طریقہ تھا کہ انھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تو اللہ نے انکے گناہوں پر انکو پکڑا اور اللہ کا عذاب سخت ہے”۔۔۔(سورہ آل عمران) ، تو کہیں پیار سے کہا… کیا میں تمہیں دنیا سے بہتر چیز بتادوں، پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے پاس جنتیں ہیںجنکے نیچے نہریں رواں ہیں، ہمیشہ ان میں رہیں گے”۔ (سورۃ آل عمران)۔
ہماری ذمہ داری کا احساس بار بار دلارہا ہے۔۔بارہا قرآن اس جزا کے دن کاوعدہ دہراتا ہے۔دن ہر نفس نے جو بھلا کیا ،حاضر پائے گا اور جو برا کام کیا امید کرے گا کاش مجھ میں اور اس میں دور کا فاصلہ ہوتا اور اللہ تمہیں اپنے عذاب سے ڈراتا ہے۔اور اللہ بندوں پر مہربان ہے”۔ ( سورۃ آل عمران)۔بیشک میرا اللہ بندوں پر مہربان ہے۔ہر نماز کے وقت اذان سے پہلے ہی دل ڈوبنا شروع ہوجاتا ہے نا چاہتے ہوئے کان “صلو فی بیوتکم” کے الفاظ سننا چاہتے ہیں۔۔دل نہیں مانتا لیکن ضمیر چاہتا ہے شاید خود کو جگانا۔۔ان الفاظ کے ذریعے اس اضطرابی ،ضمیر کو جھنجھوڑتی کیفیت کا شکار کرنا،تحریک پیدا کرنا ،غفلت سے جگانا یا خود آگہی کے کرب سے آشنا کرنا۔
خاص کر سعودیہ میں رہتے ہوئے جب نماز کے سبب کاروبار زندگی کا معطل ہونا آپ کی مصروفیات کو پنج وقتہ نماز کے ساتھ جوڑ دیتا ہے ۔ایک بے ربط اور غیر متوازن شب و روز کربناک محسوس ہورہے ہیں۔
لیکن میرا اللہ یہ بھی تو فرماتا ہےمحبوب! تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاو۔ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دیگا، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے”۔۔(آل عمران)
رجوع کا طریقہ بھی بتارہا ہے: رب سے دعا کرو گڑگڑاتے اور آہستہ “۔۔ ( سورہ الاعراف) ،اے میرے اللہ ہمارے دل تیڑھے نہ کر اس کے بعد کے تونے ہمیں ہدایت دی۔۔اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا کر بیشک تو بڑا دینے والا ہے”۔(سورہ آل عمران)۔
اللہ فرما رہا ہے: اے محبوب! جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں تو بتادو میں نزدیک ہوں، دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے”۔۔۔۔(سورہ البقرۃ)۔تو بس اللہ میاں ہماری پکار سن لے۔۔ہمیں پلٹا لے اپنی طرف، اپنے گھر کی طرف ۔۔مسجدوں کی رونقیں بحال کردے میرے مولا۔۔۔میرے گھر کے اس شور اور ہنگامے کو لوٹادے جس سے کبھی میں پریشان ہوجاتی تھی لیکن اب میرے لیے بقاء روح ہے ۔۔۔میرے بچوں کو مسجد کی طرف اٹھتے ہر قدم کی نیکیوں سے محروم نا کر۔۔۔اے اللہ ! تو رحیم ہے کریم ہے تو غفور ہے۔۔۔تیری رحمت کا واسطہ ہمیں بار بار پلٹنے والا بنا، ہمارے گناہوں کو ڈھانپ لے۔ہمیں اپنے اصل سے روشناس کروادے۔۔خود سے تعلق کو اتنا مضبوط بنادے جو حقیقی نصب العین کو پانے کا ذریعہ بن جائے۔
ان شاء اللہ جلد ” صلو فی بیوتکم ” کے بجائے “حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح” کی صدا مسجدوں سے بلند ہوگی اور ہر مسلمان اپنا اصل پہچان کر اک نئے عزم کے ساتھ اس پکار پر لبیک کہے گا۔
Mashallah bohat hi achi threer jo dill ko choo gai or ankhoose ansoo jari ho gaye.Allah hum sab ka gunnahoo ko maaf i karye or humari masjidoo ko phir se aabad karye Aameen
Mashallah bohat hi achi threer jo dill ko choo gai or ankhoose ansoo jari ho gaye.Allah hum sab ka gunnahoo ko maaf i karye or humari masjidoo ko phir se aabad karye Aameen
ایک اچھی اور پر تاثر تحریر ۔ دل سے دعا ہے کہ اللہ ان حالات کو جلد از جلد ٹھیک کر ے۔ آمین
ماشاءاللہ پر اثر تحریر۔