جب میرے دادا پاکستان کی کہانی جوش و جذبے سے سناتے تو انکے رونگٹے کھڑے ، آواز بھرائی ہو ئی اور آنکھوں میں آنسو ہوتے ۔ وہ کہتے تھے اپنی ہر چیز چھوڑ کر اپنی جان بچاتے پھرتے تھے ۔ کئی کئی دن بھوکے رہتے ۔ پتے کھاتے جھاڑیوں میں چھپے رہتے اور خاندان کی لڑکیوں کا ندیوں میں منہ دے کر سانس روک کر بے حس و حرکت کیا اور کہا اب محفوظ جگہ پر ہیں ۔بچپن میں یہ بات بھی سمجھ نہیں آتی تھی ۔ کوئی اپنی اولاد کو مار سکتا ہے ۔ کتنے جاہل ہیں کتنے ظالم ہیں ۔
مگر آج شعور میں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ آزادی کے لئے 90لاکھ عورتوں کی عصمت دری ہوئی ۔ جب دادا کے دوست واہگہ بارڈر پر آئے پوچھا کہ یہ پاکستان ہے۔ تو وہیں گر کر وفات پا گئے ۔ دادا کہتے ہیں کہ سب جائیداد، کاروبار مال و دولت سب پیچھے چھوڑ آئے تھے ۔ اس لئے اتنے حالات خراب ہو گئے تھے۔ جس دن دال پکتی تو امی سے کہتا ؎
تیرن لئی کچھا دے دیو دل ددا دانہ لجھنا ائے
قمیض لمبی پہنا کے شلوار کا کام لیا جا تا ۔ کیونکہ آزادی کے لئے سب کچھ پیچھے چھوڑ دیا تھا ۔ تم کیا جا نو آزادی کی قیمت ۔ 1600ء انگریز آئے ساڑھے تین صدیاں ہم نے ظلم سہے ۔ صرف 1940ء کی قرار داد سے صرف 5دن پہلے کی کہانی سناتے تھے۔ انگریزوں نے خا کساروں کے جلوس پر پابندی لگادی ۔ مگر قا ئد اعظم نہ رکے ۔
خاکساروں نے 19مارچ کو جلوس نکالا بیلچے لئے ۔ انگریزوں نے گو لی چلا دی ۔ بہت سے خاکسار زخمی و شہید ہوئے ۔ مگر منٹو پارک میں پنڈال سج گیا ۔80سال پہلے اجلاس ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا ۔ اس خوف سے کہ ہنگامے نے پھوٹ پڑے۔ شعلہ بیاں مقرروں سے حکومت پر لرزہ طاری تھا۔21مارچ کی شام کو قا ئد اعظم دلی سے ٹرین پر سوار ہوئے ۔ راستے میں ایک ہندو مسلمان ہوا۔ بہادر یار جنگ نے کلمہ پڑھایا ۔
ٹکٹ تھی پنڈال کے اندر جانے کی ۔ لاہور سے قصور تک پھول ختم ہوگئے ۔ دادا جو طالب علم تھے ۔ انہوں نے کہا قا ئد ، قائد اندر جانا ہے۔ What’s the matter اندر جانا ہے ۔ ٹکٹ ختم ہو گئے ہیں ۔ انہوں نے فوری حکم دیا سب کو ایسے ہی آنے دو ۔ شاہنواز نے استقبا لیہ پڑھا ۔ قائد زخمیوں کو دیکھنے میو ہسپتال گئے ۔ فضل الحق بنگا ل کے وزیر اعلیٰ مصروفیت کی وجہ سے 22کو نہ آسکے تو 23کو آئے۔
لوگوں نے شیرِ بنگال کے نعرے لگائے تو قائد نے مذاقاً کہا اب مہینے کو چھپ جانا چاہئے ۔ 3:30 بجے ڈائس پھر آکر قرار داد پڑھی ۔ ہندو پریس نے اسے چوہدری رحمت علی کی سکیم پاکستان کہا ۔ یہ صرف پانچ دن دادا کی زبانی سنے ۔ میرے بچوں تم کیا جا نو آزادی کی قیمت ۔
کیا آج مدینہ کا مماثل پاک شہر، پاک لوگوں کے دینے کی جگہ یہ وہی پاکستان ہے ۔ جس کا خواب ہم نے دیکھا تھا جس کے لئے اتنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ آج انسان اتنا گر چکا ہے کہ وہ مرے ہو ئے گدھے اور کتے کا گوشت کھلا رہے ہیں۔ دودھ زہر ، مرغی انڈے ، بیماریوں کا گھر ، ڈاکٹر، ڈاکو ، وکیل لٹیرے ، سبزیاں کیمیکل زدہ ، ہر چیز میں ملاوٹ ، سڑک پر پڑے زخمی کے ہاتھ سے گھڑی ، پرس اور موبائل چھین لیا جا تا ہے ۔ کیا یہ وہی پاکستان ہے جسے اتنی جدوجہد سے حاصل کیا تھا ۔
یہ وہ جگہ جہاں ماسک 10روپے کا 300روپے میں بیچا جاتا ہے ۔ رمضان آتے ہی ہر چیز غریب کی پہنچ سے باہر ہو جاتی ہے۔ غریب قبرستان میں جا کر خودسوزی کر لیتا ہے ۔ امیر اپنی عیاشیوں میں مصروف ہے ۔ غریب روزمرہ کی ضروریا ت مہنگائی کے ہاتھوں پوری کرنے سے قاصر ہے ۔ یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا ۔ ہمیں ضمیر کی آواز پر قرآن و سنت کو سنگ میل بنانا ہوگا ۔ سادگی ، صبر و قناعت کو شعار بنا کر اخلاقی فیصلے پر عمل کر کے تقویٰ کا راستہ اختیار کر نا ہو گا ۔ تاکہ پاکستان کو دہشت گرد کہنے کے بجائے اقبال کا مومن کہا جا ئے ۔
حقوق العباد کی ادائیگی کرتے ہوئے انصاف کا دامن تھامنا ہو گا ۔ اپنی جڑوں کو مضبوطی سے تھامنا ہو گا تا کہ اسلاف کے کارناموں کو نشاط ثانیہ کے دہرائے جائیں اور ٹیپو سلطان ، عبد الستار ، خواجہ ناظم الدین اوراق پارینہ کے بجائے نئی نسل کی شاہرہ بن سکیں ۔ ہم کچھ تو قرض اتار سکیں اپنے قائد کا ۔ کچھ آزادی کی قیمت ادا کرسکیں اور دادا کو میں کہہ سکوں آپکی قربانیاں را ئیگاں نہیں گئیں ۔ (جب وہ خواب میں آئیں گے۔