آج کے تناظر میں بہت سی سنجیدہ اور غیر سنجیدہ پوسٹ پڑھنے کو مل رہی ہیں،کسی کو دیکھ کر دل دہل جاتا ہے تو کوئی زندگی میں مگن نظر آتا ہے۔ عجب سماں ہے نہ کسی کے گلے لگ کر رو سکتے ہیں نہ ہنس سکتے ہیں، کیونکہ زندگی امانت ہے اور اس کی حفاظت بھی کرنی ہے۔ایک اور بات جب آپ دیار غیر میں ہوں اور کوئی خونی رشتہ بھی آپ کے قریب نہ ہو،صرف سوشل نیٹ ورک ہی آپ کے رابطے کا ذریعہ ہو تو دل اندر سے باہر آنے لگتا ہے،بے بسی کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔
واقعی جو سنا ہے کہ قیامت میں کسی کو کسی کی فکر نہیں ہوگی یہاں تک کہ مائیں اپنے نومولود کو بھی چھوڑ دیں گی۔ابھی بھی کسی قیامت صغریٰ سے کچھ کم نہیں ، سب ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی بے بس،کسی کے غم و خوشی میں شرکت نہیں ہوسکتی۔ہر وقت ایک خیال کہ یا اللہ سب خیریت رہے،رات کے کسی پہر الارم پر بھی دل دہل جانا کہ کیا ہوگیا اور بہت کچھ اجتماعی دعائیں جاری ہیں ایک ڈر ہے کہ یا اللہ مہلت دے دینا۔زبان جیسے لڑکھڑا رہی ہے کچھ بولا نہیں جارہا۔اللہ کو کیسے پکاریں شرمندہ ہیں!
کیا اللہ ہمیں معاف کردیں گے!! ہمیں قوم نوح،قوم لوط،قوم عاد اور بنی اسرائیل جیسی سزا تو نہ دیں گے!! اللہ تعالیٰ زندگی کی تمام خواہشات پوری ہوگئیں، اب آخرت میں بھی ہم سب کو جنت الفردوس میں جگہ دیجئے گا بغیر حساب کے۔ بہت ندامت کے ساتھ یہ بات کہی مگر آپ تو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ہم بہت سی ناجائز خواہشات بھی کرتے ہیں،آپ تو وہ بھی ہمیں دیتے ہیں تو ایک یہ التجا بھی سن لیں اپنے نیک بندوں کے واسطے ہم سب کو معاف فرما دیں۔
ہم تیرے محبوب نبیؐ کی امت ہیں ،گنہگار ہیں ہمیں معاف فرمادیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کہتے ہیں نا.. میری طرف ایک قدم بڑھاؤ میں دس قدم بڑھاؤ ںگا ہمیں اس بیماری ،اس آزمائش سے نجات دے دیں ۔ہمیں مہلت دے دیں، ہمیں اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل فرمالیں ۔ہمیں، ہمارے گھر والوں،اجتماعیت کے ساتھیوں،دوستوں ،رشتے داروں اور جن جن سے ہمارا تعلق و رابطہ ہے ان سب کو اور جن سے نہیں ان کو بھی اور تمام امت مسلمہ کو معاف فرما دیں ۔آمین۔