لانگ ویک اینڈ کے بعد آج پہلے دن گھر سے باہر نکلنا ہوا۔ گلیاں، بازار سنسان، شاہراہیں ٹریفک سے خالی، شہر میں ہو کا عالم، ایک اور نیا مظاہرہ جو دیکھنے کو ملا وہ چوکوں چوراہوں پر پولیس افسران اور سپاہی اور کہیں فوجی جوان، کسی سمت ٹریفک وارڈنز اور کہیں رینجرز کے جوان۔ ائیر پورٹ روڈپر”Chippaکی ایمبولینس اور مستعد ڈرائیور، شہر میں ایمرجنسی اور کرفیو کا سماں پیش کر رہا تھا ۔
وہ سڑکیں جہاں رش کی وجہ سے میں جانا پسند نہیں کرتا تھا سنسان پڑی تھیں۔ دل مغموم تو ہوا مگر ساتھ ہی مطمئن بھی کہ قوم نے حالات کو سنجیدگی سے لیا ہے اور حفاظتی اقدامات پر طوحاً و قرحاً عمل شروع کر دیا ہے۔ وبا ہی ایسی پھیلی ہے کہ بچے بڑے سب اس سے محتاط ہو گئے ہیں ۔ ایک ریڑھی بان کو دیکھا جو بچوں سمیت سڑک پر جا رہا تھا اور اس نے ماسک لگا رکھا تھا۔ اس کی بیوی اور معصوم بیٹی بھی دوپٹے سے اپنا منہ ڈھانپے ہوئے نظر آئیں۔
اسٹوڈنٹس سے بات ہوئی تو ان کے والدین پہلے سے آمادہ تھے کہ بچوں کو آن لائن ٹیوشن دے دیں۔ الغرض ہر سمت ایسے مناظر دیکھنے کو ملے کہ یقین ہو گیا ہم ایک منظم قوم ہیں اور کرونا کو شکست دینے کے لیے پر عزم ہیں۔ اسی قومی جذبے کی ضرورت تھی جو بیدار ہو چکا ہے اور یقیناً یہ کرونا فری پاکستان کا آغاز ہے۔
ان الانسان کان ظلوما جہولا
خالق کائنات نے اپنے کلام قرآن مجید میں انسان کو ظالم اور بے علم قرار دیا۔ انسان کی کیفیت ایسی ہی ہے کہ وہ قریب کی چیز کا اثر فوراً قبول کرتا ہے اور دور کی چیز کو ایسے بھلا دیتا ہے گویا اس کو مانتا ہی نہیں ۔ آج دنیا بھر میں کرونا وائرس پھیل رہا ہے، اس کی وجہ سے کربناک اموات نظر آ رہی ہیں، تشویشناک صورتحال ہے اور ہر کوئی خبردار نظر آتا ہے ۔
بہت اچھی بات ہے اس سے کوئی انکار نہیں مگر انسان عقبیٰ کو بھول چکا، اپنے دنیا میں آنے کے مقصد کو بھلا چکا ہے۔ یہ بھول چکا ہے کہ اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا۔ اس کا حق تو یہ تھا کہ دنیا میں خدا کی نیابت اختیار کرتا اور اللہ کے احکامات کو نافذ کرتا مگر وہ سب بھول کر اپنی ہی دنیا میں مگن ہو گیا۔ جب تک ڈھیل ملی رہی انسان نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ صدیوں سے انسانی رویے میں تبدیلی نہ آ سکی۔
جدید سائنسی تحقیق اور علوم و فنون میں مہارت بھی انسان میں قبل از وقت توبہ کا شعور بیدار کرنے سے قاصر رہی اور آج بھی جب مصیبت گلے پڑ جاتی ہے تو رجوع الی اللہ کی فکر جاگتی ہے۔جب انسان اپنی فطرت پر قائم ہے تو قربان جاؤں اس مالک کائنات پر جو ہر بار خطا کاروں سے درگزر کا معاملہ فرماتا ہے۔ قریب ایک ماہ بعد رمضان کی آمد آمد ہے۔ سابقہ تاریخ گواہ ہے کہ رمضان تزکیہ قلوب اور اصلاح نفس کا موقع فراہم کرتا ہے مگر اس بار تو رمضان سے پہلے ہی لوگوں کے دلوں سے زنگ اتر جائے گا۔